بلوچستان کا ایسا کوئی گھر نہیں جہاں سے لوگ لاپتہ نہ ہوئے ہوں۔ ماما قدیر بلوچ

240

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4983 دن ہوگئے ہیں، کوہلو سے میر بجار بخاری، رحمت مری، دوستین مری اور مختلف فکر کے لوگوں نے کیمپ اکر اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جو سیاسی صورتحال ہے اس سے کوئی بے خبر نہیں ہے، اغواء کا یہ سلسلہ 1948 سے لیکر آج تک جاری ہے لیکن اس سلسلے میں جو تیزی سال 2000 سے شروع ہوئی وہ آج تک جاری ہے۔ اس کا بغور جائزہ لیا جائے اور انصاف کے عالمی ادارے اس کا جائزہ لیں تو یہ بہت بڑا المیہ ہے جیسا کہ بلوچ فرزندوں کی اغواء اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ہے جو غیر قانونی طریقے سے پاکستانی فوج اٹھاکر اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے کونے کونے سے بلوچ فرزند اغوا ہوتے ہیں۔ بلوچستان کا ایسا کوئی گھر نہیں جہاں سے لوگ لاپتہ نہ ہوئے ہوں پاکستان کی نئی ڈاکٹرائن جو بلوچوں پر استعمال ہو رہے ہیں پرامن جدوجہد کو کاونٹر کرنے کے لیے مذہبی اور قبائلی طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ساٹھ ہزار کے قریب بلوچ نوجوانوں کو جبری اغواء کیا گیا لیکن تاحال ان کا کوئی پرسان حال نہیں، اس طرح کے انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف تمام مظلوم اقوام کو ہم آواز ہو کر کھڑا ہونا چاہیے. بلوچستان میں حکومتوں کی تبدیلی پھر نئی حکومت لانا یہ ہماری جہد مسلسل کو نہیں روک سکتا ہے