اسلام میں سرمایہ دارانہ نظام کیسے داخل ہوا؟ ۔ مولوی اسماعیل حسنی

333

اسلام میں سرمایہ دارانہ نظام کیسے داخل ہوا؟

تحریر: مولوی اسماعیل حسنی 

دی بلوچستان پوسٹ

سرمایہ دارانہ نظام خیر القرون میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک یہودی مولوی کعب احبار (جن پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بھی الزام ہے) کے ظاہری اسلام اختیار کرنے کے بعد اپنی یہودیانہ معاشی چربہ (سرمایہ داریت اور اس کے جملہ لوازمات) لیکر اسلام میں داخل ہوکر سرایت کرتی گئی، ایک دن کعب احبار حضرت عثمان کے ساتھ محو گفتگو تھے کہ حضرت ابوذر آئے، حضرت ابوذر نے چند معاشی اقدامات پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے گفتگو کرنے لگے تو کعب بھی مجلس میں حصہ لینے لگے جس پر حضرت ابوذر کی طرف سے انہیں بہت سخت و سست سن کر مجلس سے بھاگنا پڑا۔ یہ واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ ”قضیہ ارض مقدس“ میں بھی لکھا ہے، اس کے بعد رفتہ رفتہ جب دورِ ملوکیت آگیا تو یہودی مولویوں کی تشکیل کردہ اس معاشی نظام (سرمایہ داریت) کو سرکاری طور پر آزمانے کا بھرپور موقع ہاتھ آگیا۔

قرآن کریم نے اسلام کے معاشی نظام کو دو الفاظ میں بیان کیا ہے ”وان لیس للانسان الا ماسعی“ یعنی انسان کےلیے کچھ نہیں مگر اس کی محنت کے، اس واضح حکم کی روشنی میں معاوضہ محنت پر ہے سرمایہ پر نہیں، سرمایہ دارانہ نظام اس کے بالکل برعکس اور الٹ ہے۔ اس میں معاوضہ محنت پر نہیں بلکہ سرمایہ پر ہے، آپ پوری زندگی محنت کرتے رہیں مرنے کے بعد اولاد کےلیے کچھ بھی باقی نہیں بچے گا، مرنے کے بعد ہی کیا جب آپ کی عمر ڈھلنے لگی تو آپ مزید محنت نہیں کرسکتے فقر و فاقہ پر مجبور ہوں گے اور اولاد مجبور ہوکر ڈاکے اور جرائم کی طرف جائیں گے یا پھر سرمایہ دارانہ نظام کا سہارا بنیں گے، محنت کش طبقہ پوری زندگی اپنے پاؤں پہ کھڑا نہیں ہوسکتا اور جس کے پاس سرمایہ ہے وہ انوسٹمنٹ کے نام پر اپنا سرمایہ بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ یہی نظام ہے جسے دیہات میں جاگیرداریت کہا جاتا ہے شہر میں سرمایہ داریت، دیہات میں زراعت کے بہانے جاگیردار کماتے ہیں اور شہر میں کارخانہ، فیکٹری یا چھوٹے موٹے کاروبار کی صورت میں سرمایہ دار، دیہات میں محنت کش کو کسان کہا جاتا ہے اور شہر میں مزدور یا ملازم، محنت کش کو اس کے محنت کا معاوضہ اتنی رقم میں طے کیا جاتا ہے جس سے وہ بمشکل ایک مہینہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکے، اس کی محنت کا استحصال یوں کیا جاتا ہے کہ سرمایہ دار گھر بیٹھے بیٹھے محنت کش کی محنت کے بدلے اپنے بچوں کو حرام کھلا رہا ہوتا ہے، اس محنت کے محاصل سے مزید فیکٹری بنانے کا قابل ہوجاتا ہے۔ محنت کش محنت کرکے بھی دال اور خشک روٹی پر گزارہ کر رہا ہوتا ہے جب کہ یہ حرام خور گھر بیٹھے چکن، قورمہ، سجی، کباب، بروسٹ وغیرہ سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ محنت کے استحصال کا یہ نظام خالصتا یہودی معاشی نظام ہے، کارل مارکس نے اس نظام کے خدا کا انکار کیا تھا، انہیں قرآن کے معاشی سسٹم کا علم ہوتا تو وہ ہرگز انکار نہ کرتا۔

اب ہمارے ہاں دورِ ملوکیت میں سرکاری شیخ الاسلاموں اور درباری مفتی اعظموں کے ہاتھوں اسلام کے معاشی نظام کے ساتھ کیا ہوا ہے؟ یہ بھی قابلِ غور ہے۔ ہمارے علماء ممبروں سے بادشاہوں کےلیے ”ایدہ اللہ بنصرہ“ اور ”خلدہ اللہ ملکہ“ کی دعائیں مانگ کر ان کی حکومتوں کو مذہبی ٹچ کا سہارا دیتے رہے ہیں، ہمارے اکثر حکمران عیاش ہوتے تھے، قرآن نے غلامی سسٹم کے خاتمے کا اعلان (فک رقبۃ کے ذریعے) نزول کے دور میں ہی کردیا جس پر دورِ نبوی سے بتدریج عمل ہونا شروع بھی ہوگیا لیکن دورِ ملوکیت نے اس کو آخر دم تک برقرار رکھا۔ ایک ایک بادشاہ کےدربار میں دو سے تین ہزار لونڈیاں ہوتی تھیں جن سے وہ اپنی شہوت کا پیاس بجھاتے رہتے تھے۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہو یا زمینون کی الاٹمنٹ کا سرمایہ دارانہ تصور، یہ بھی ان ہی حکمرانوں کا کارنامہ ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیردار کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ سرکار کو ٹیکس اور مولویوں کو زکوۃ دیتے، سرکار بھی خوش اور خدا بھی راضی، خدا کی رضامندی کے تصور میں مولوی حضرات ان کے دفاع میں قرآن کے واضح ہدایات کی اور نص صریح کے بالمقابل من گھڑت روایتوں کا سہارا لیکر فقہی قاعدوں اور اصطلاحات کے انطباق سے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو کھلی چھوٹ دے دیتے کہ وہ جو چاہیں کر گزریں، سرمایہ دار غریبوں اور محنت کش طبقہ کو ان کا حقہ دینے کے بجائے عظیم الشان مسجدیں بنواتے، بنی ہوئی مساجد کی تزئین وآرائش اور زیبائش پر خرچ کر ڈالتے، یا مدارس اور دارالعلوموں کی بلند بانگ عمارتیں تعمیر کرتے، اس حسنِ خدمت کی بدولت شیخ الاسلاموں اور مفتی عظموں سے بدلے میں جنت کے پروانے وصول کرتے کہ ثواب کا کام تو صرف سرمایہ دار اور جاگیردار کرسکتا ہے، غریب کی حیثیت کیڑے مکوڑوں کی ہے، وہ ارضی دنیا میں بھی عارضی جہنم میں رہتے ہیں اور آخرت میں جہنم ہی جہنم نہ حج کرسکتے ہیں نہ عمرہ، نہ زکوۃ دے سکتے ہیں نہ ہی صدقہ و خیرات، نہ مساجد تعمیر کرسکتے ہیں نہ ہی مدارس اور خانقاہیں، اس تصورِ کی روشنی میں سرمایہ داروں کے دونوں ہاتھ اس دنیا میں گھی اور سر کڑاہی میں اور آخرت میں بھی ابدی جنت میں ہر مسجد کے عوض بہترین محل وہ بھی یاقوت و زمرد کا، اگر کبھی کوئی گناہ (یعنی شراب نوشی، زنا یا اس جیسے کوئی اور جرم) سرزد ہوجائے تو حج کے ذریعے وہ گناہ ایسے دھل جاتا ہے کہ جیسے وہ ابھی ماں کی پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں، سرمایہ دار کےلیے یہاں بھی عیش اور وہاں بھی عیش، یہ جنت کی وہ ابدی ضمانت ہے جس کا تصور یہود نے اپنی معاشی سسٹم سرمایہ داریت میں کے ذریعے فروغ دیا تھا۔ یہی تصور دورِ ملوکیت میں اسلام کے اندر بھی سرایت کرتا گیا۔ جس نے بھی اس پر رد کیا تو سرمایہ پرست مولویوں نے اس کی زبردست نکیر کی، عبیداللہ سندھی کا جرم اور کیا تھا؟ یہی تو تھا جس پر آج بھی سرمایہ پرست مولوی موقع پاتے ہی ان کے عقیدہ و ایمان کو مشکوک بناکر پیش کرتے ہیں، وہ اسلام کے معاشی نظام کے مصلح اور داعی تھے، ان کا نظریہ یہی تھا محنت کے بدلے معاوضہ ملنا چاہیے سرمایہ کے عوض نہیں، ان کے پیشِ نظر قرآن کا یہ عظیم تصورِ معیشت تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی میں بھی مولویوں کی تکفیر سہتے رہے اور بعد از وفات بھی تھانوی اور عثمانی مولوی جن کے آباؤ اجداد نہایت کم معاضے پر انگریز کےلیے تحریک آزادی کے عظیم مجاہدین کی جاسوسی کا فریضہ انجام دیتے تھے۔

یہی صورت حال آج بھی ہے، دنیا پر اس وقت سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے جس کی اساس بینکاری نظام پر ہے، آپ اپنا کوئی بینک کھولیں تو پورا سرمایہ دارانہ سسٹم فالو کرنا پڑے گا۔ وجہ یہ ہے کہ آپ کو اسٹیٹ بینک سے اجازت لینا پڑے گی، اسٹیٹ بینک آپ کو جن شرائط پر اجازت دے گا وہ ورلڈ بینک کے طے کردہ شرائط ہوں گے، اب آپ اس سسٹم کے اصطلاحات کو ہزار دفعہ مزارعت و مضاربت کا نام دیتے رہیں اس سے فرق نہیں پڑے گا۔ جس کو آپ انوسٹمنٹ کا نام دیتے ہیں وہ اجنبی لفظ کی حد تک تو مسلمان ہوگا لیکن طریقہ کار وہی ربوا (سود) کا ہے۔ وہ کیسے؟ اس کو ذرا ایک مثال کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، فرض کریں میرے پاس ہنر ہے لیکن دولت نہیں، میں کسی سرمایہ دار کے پاس قرض لینے جاتا ہوں تو کہتا ہے قرض کیوں؟ مشارکت کے طور پر کام کرتے ہیں۔ دولت میں لگاتا ہوں اور محنت آپ کی، ہزار روپیہ دے دیتا ہے، سو روپیہ میں سے پچاس ان کی پچاس میری، سوال یہ ہے کہ یہ پچاس وہ کیسے لے رہا ہے؟ اسلام میں نصِ صریح کی روشنی میں اس کے لینے کےلیے قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں، فرض کریں یہی رقم وہ گھر پر ایک سال بھی رکھتے تو کیا ہزار روپیہ پر ایک روپیہ اضافہ ہوتا؟ بلکہ الٹا گم ہونے یا کرنسی کھوٹے ہوجانے کا اندیشہ رہتا۔ خواہ مخواہ کی تاویلیں کرکے سرمایہ دارانہ نظام میں شرعی اصطلاحات چسپاں کرکے اسلام کے معاشی نظام سے امت کا رُخ موڑ دیا گیا ہے۔ اگر یہ سرمایہ دار نہ ہوتے، ان کا یہ نظام نہ ہوتا تو یاد رکھو اس نظام کو مذہبی جواز فراہم کرنے والے ان مولویوں کے بھی یہ اوقات ہرگز نہ ہوتے جو میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے معاشرے پر آج انہیں عطاء کی گئی ہے، یہ مولوی سرمایہ داروں سے خوب مراسم رکھتے ہیں لیکن اس ظالمانہ نظام سے کچھ بھی تعرض نہیں کرتے، یہ نظام بھی ان کا پیچھا نہیں کرتا اس لیے کہ یہ بھی اسٹیک ہولڈر ہیں، یہ بھی سرمایہ داروں کی مفت خور ہیں۔ غریب اور محنت کش کے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں یہ حضرات ”حرمتِ سود سیمینار“ (احترامِ سود کانفرنس) منعقد کرکے سودی نظام کو فروغ دینے کےلیے قوم کو پہلے سے تیار رکھتے ہیں، سرمایہ دار کیا کرتے ہیں؟ محنت کش طبقہ کو محنت کا معاوضہ دینے کی بجائے عالیشان مسجدیں اور بلند بانگ مدرسے تعمیر کرواتے ہیں، سرمایہ پرست مولوی کیا کرتے ہیں؟ ان مدرسوں میں بیٹھ کر فتوؤں کی ذریعے اور مساجد کے ممبرز پر بیٹھ کر بیانات کی صورت میں سرمایہ داروں کو جنت کی نویدیں سناتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں