ڈیرہ جات میں حریت پسندی (آخری حصہ) ۔ واھگ بلوچ

382

ڈیرہ جات میں حریت پسندی (آخری حصہ )

تحریر: واھگ

دی بلوچستان پوسٹ

اسلام و کلمہء طیبہ کی بنیاد پر بننے ولی ریاست نے شروع ہی دن سے اپنے آقا انگریزوں کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر اُن کی پالیسیوں کو خطے میں نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ غیر فطری ریاست پاکستان میں مظلوم اقوام پشتون ،سندھی،گلگتی، بنگالی نے پاکستان بننے کے ساتھ ہی اپنی حقوق کی جدوجہد شروع کردی ، بنگالی پاکستان سے چھٹکارہ پانے میں کامیاب ہوگئے لیکں دوسرے اقوام آج بھی ظلم کے خلاف جہد کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

پنجابی فوج کے تیسرے جنرل ایوب خان کی دور آمریت میں یہاں رہنے والے اقوامِ کو مکمل طور پر زیر تسلط رکھنے کے لیئے کئی طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرکے ان کو مزید غلام رکھنے کی کوشش کی گئی تھیں۔

یہ پہلے مسلمان جنرل اور پنجابی فوج کے کمانڈر ان چیف تھے اس سے پہلے پاکستان فوج کی کمان انگریز رہے تھے۔ اس دوران ایوب خان نے روس کے خلاف امریکہ کو ہوائی اڈے دیا اور امریکہ کو پاکستان میں جگہ دی گئی تاکہ وہ روس کے خلاف طویل عرصے تک جنگ کرسکیں۔ بنگلہ دیش میں جاری قومی تحریکوں سے وابستہ کارکنوں کو جبراً لاپتہ کیا گیا اور ان کو شہید کیا گیا۔ اسٹوڈنٹس پر کیمپس پولٹیکس اور سیاسی شعور پیدا کرنے والے سر گرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ بلوچستان، سرحد ،سندھ،بنگلہ دیش میں عوامی شعور کو کچلنے کے لئے کئی سیاسی اور جنگی اقدامات ایوبی آمریت کے دور میں ہوا تھے۔

1966,67 کے وقت جنرل ایوب خان کے دور میں کوہ سلیمان میں بلوچ وطن پر لینڈ ریکارڈ کے نام پر دھوکا دے کر ان علاقوں میں زمینوں پر قبضہ کرنے اور اپنے قدم جمانے کی کوشش کی گئی لیکن بلوچ وطن کے فرزندوں نے پنجابی فوج کے سپاہیوں سے جنگ کرکے اُنہیں بلوچ سرڈگار سے بے دخل کر دیا تھا۔

کوہ سلیمان کے رہنے والے بلوچوں کو جب اس بات کا علم ہوا کہ سرکار نے لینڈ ریکارڈ کے نام پر بلوچ قبائل کی زمینوں پر قبضہ شروع کردیا ہے تو بلوچ قبائل نے مزاحمت کرکے اِن علاقوں کی زمینوں سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا۔ جنرل ایوب نے کوہ سلیمان کے بلوچوں پر فوج کشی کا سوچ رہے تھے لیکن بزدار قبیلے چند شعور یافتہ بلوچوں نے جنگ کا اعلان کیا تو آواز پر پوری بزدار قبیلہ اُن کے ساتھ شامل مزاحمت ہوا۔

1967 نومبر کے آخری عشرے میں بزدار قبائل کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ سرکار فوج کشی کرنے کی نیت سے تونسہ شریف پہنچ چکی ہے تو پورے تمن بزدار کے ہر گھر سے بزدار قبیلے کے لوگ روانہ ہوئے اور ھان بند تھلہ تھوخ کے پہاڑوں میں مورچہ زن ہوئے اور دشمن فوج کا انتظار کرتے رہےاور پنجابی فوج 25٫26 نومبر کو ھان بند کے قریب پہنچی چکی تھی۔

بزدار قبائل کے جنگجووں وحید شہوانی بلوچ ، صدیق بلوچ، نورجان بلوچ ،داد جان اور بہار جان کی قیادت میں ھان بند کے مقام پر مورچہ زن ہوئے اور جوں ہی دشمن فوج ھان بند کے مقام پر پہنچی تو پہاڑوں میں روپوش بلوچ جنگجووں کی طرف سے ان پر ہر طرف سے حملے کیئے گئے اور سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی ملیشیا اور آرمی اہلکار ہلاک ہوئے اور سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ مزاحمتکاروں کی بندوق سے نکلنے والی گولی کا نشانہ بنکر زخمی ہوئے ۔

ھان بند کے مقام پر مسلسل گیارہ روز تک بزدار قبیلے کی پنجابی فوج سے جنگ جاری رہی جس میں سات دسمبر 1967 کے دن بڑی نوعیت کے حملے کئے گئے جس میں بزدار قبیلے تین بہادر سپوت محمدان بلوچ ، یار محمد اور دوست جان بلوچ شھید ہوئے۔

اس جنگ کی سب سے خوبصورت اور دل چسپ بات یہ ہے کہ فوج کی جانب سے یہاں رہنے والے بلوچ لیویز فورس اور باڈر ملٹری پولیس کے بلوچ نوجوانوں کو بزدار قبیلے کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے مجبور کیا گیا لیکن بلوچ لیویز اور باڈر ملٹری پولیس کے نوجوانوں نے بلوچ سرمچاروں کا ساتھ دیا جس میں اس وقت کے جمعدار نور محمد بلوچ خود سرکاری بندوقیں اٹھا کر سرکار کے خلاف جنگ کی قیادت کرتے رہے ۔

سرکار کی طرف سے روجھان مزاری اور راجن پور سے مزاری ،دریشک اور گورچانی بلوچ جو کہ لیویز کے ملازم تھے ان کو بزدار قبیلے کے خلاف لڑنے لے لئے ھان بند کے مقام پر بھیجا لیکن انہوں نے بھی اپنے لوگوں کے خلاف جنگ کرنے سے انکار کردیا تھا ۔

جنگ کے دوران پانچ جنگجو اور چند لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا جن پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے گئے۔ اُن پر سخت تشدد کیا گیا جس کی وجہ سے رحیم جان بلوچ شہید ہوئے ۔ منگروتھ تھانے کی حددو میں فوج کی جانب سے تقریباً بزدار قبیلے کے ہر گھر کے ایک ایک فرد پر ایف آئی آر درج کی گئی جس میں دو سو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا ۔

بارہ سو لوگوں پر ایف آئی آر درج کی گئی اور ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر گھروں پر چھاپے مارے گئے ۔ بلوچستان سے ایک محمود نام کے سپیشل مجسٹریٹ کو اس علاقے کی نگرانی دی گی جس بلوچ قبائل کے سفید ریش بزرگوں اور عزت دار لوگوں کا جینا دوبھر کردیا تھا۔

پنجابی فوج بڑی پیمانے پر جنگ میں بزدار قبیلے کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد واپس چلے گئے اور بلوچ وطن کے بہادر سپوت اپنے زمینوں پر قبضے کو روکنے میں کامیاب ہوئے اور تاریخ میں سرخرو ہوئے۔

آج کوہ سلیمان کے پہاڑی ایریا میں سرکار یا حکومت کی دسترس میں نہیں ہے اور اُن زمینوں کا مالک ؤ وارث یہاں کے بہادر قبائل ہیں۔ یہ کامیابی ان عظیم شہیدوں اور غازیوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے جنگ میں قربانی دی اور ہر طرح کے مشکلات کا سامنا کر کے وطن پر دشمن کو قبضہ کرنے میں کامیاب ہونے نہیں دیا ۔

ہفت دسمبر تحریک کو شہدائے ھان بند تھلہ تھوخ کے نام سے منسوب کیا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد اس تحریک کو شہدائے کوہ سلیمان کے نام سے منسوب کیا گیا۔ سرکار کی جانب سے اس تحریک کے بانی اور نظریاتی دوستوں پر ایف آئی آر درج کی گئی ان کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔

شہدائے کوہ سلیمان کے فلسفے نے ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں نئی روح پھونک دی ، جس کے بعد ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں میں قومی شعور پیدا ہوا اور یہاں مزاحمتی کردار پیدا ہوئے۔

کوہ سلیمان میں 1970 کی دہائی میں سرکار نے بغل چر کے مقام پر اٹامک انرجی کے پروجیکٹ شروع کئے، جہاں پنجابی آفیسروں کی نگرانی میں بلوچ سرزمین پر ان کے فرزندان سے جبراً محنت و مشقت کروا کر ان کو معاوضہ نہیں دی جاتی تھی جس کی وجہ سے یہاں رہنے والے لوگوں میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہوئی ۔

نزیر بلوچ نے 1989 میں اٹامک انرجی بغل چر کے پروجیکٹ ڈائریکٹر یعقوب چوہان کو رہی سند کے مقام پر روک کر ہلاک کر دیا جس کے بعد بغلچر میں کئی عشروں تک اٹامک انرجی کے پروجیکٹ بند رہے جو کے سرکار اور ریاست پاکستان کےلئے درد سر تھا۔ اس زمین کے وارث بلوچ ہیں اور اس زمین سے نکلنے والی معدنیات کا مالک بھی بلوچ قوم ہے لیکن پنجابی اس سرزمین کے وسائل کو بروئے کار لا کر خود کو مظبوط کر کے ہمارے وسائل کے ذریعے ہماری نسل کشی کی کوشش کر رہی ہے ۔

یہاں کے رہنے والے بلوچ ایک تاریخ اور تہذیب و تمدن کے مالک ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تاریخی پہلوؤں کو اجاگر کر کے دشمن کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے۔

شہدا کی قربانیاں ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے، آئیں ہم یہ عہد کریں کہ کوہ سلیمان سے لیکر چاہ بہار تک ان شہیدوں کے فکر و فلسفہ پر عمل کر کے دشمن کو بلوچستان سے نکال کر اپنی سرزمین کے وارث خود بن جائیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں