ماہل بلوچ جبری گمشدگی و بارکھان واقعہ پر مختلف شہروں میں مظاہرے

119

بلوچ خاتون ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی و الزامات اور بارکھان واقعہ کے خلاف بلوچستان سمیت مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں و دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے- مظاہرین واقعہ میں ملوث صوبائی وزیر کی گرفتای کا مطالبہ کررہے ہیں-

بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی و قتل کے خلاف آج بلوچ یکجہتی کمیٹی ڈیرہ غازی خان کی جانب سے کالج چوک ڈیرہ غازی پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

اسی طرح بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد کی جانب سے بھی واقعات کے خلاف نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے ایک ریلی نکالی گئی ہے-

ڈیرہ غازی خان مظاہرین کا کہنا تھا سرکاری سرپرستی میں بلوچستان کے سردار بلوچ عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں مذکورہ سردار کھیتران سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں سرکاری آشیر آبادی سے نجی جیل بنائے گئے ہیں جہاں عام بلوچ استحصال کیا جاتا ہے اور سرکاری ادارے ان سرداروں کے پشت پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اب بھی درجنوں غریب بلوچ سرداروں کے نجی جیلوں میں قید ہیں-

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب پاکستانی فورسز اہلکاروں نے کوئٹہ نہتے ماہل کو انکے بچوں کے ہمراہ جبری لاپتہ کرکے تشدد کا نشانہ بنایا اور بعدازاں الزامات لگائے گیے۔ اس طرح ماوارائے قانون اقدامات بلوچ خواتین کے ساتھ کافی عرصے سے روا رکھے جارہے ہیں۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں مظاہرین نے بلوچ خاتون ماہل بلوچ پر جھوٹے مقدمات اور گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے انہیں فوری طور پر باعزت بری کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ خواتین ریاستی جبر کے شکار اور غیر محفوظ ہیں۔ لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین کو ڈرانے کے لئے اس طرح کے اعمال کیے جارہے ہیں۔

ادھر بلوچستان کے شہروں تربت ، حب ، خضدار اور صحبت پور میں میں عبدالرحمن کھیتران کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

مری اتحاد و آل پارٹیز کیچ کے زیر اہتمام شھید فدا چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، مظاہرین نے سردار عبدالرحمان کھیتران کی فوری گرفتاری و خان محمد مری کے خاندان کے دیگر بچوں کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا ہے-

بارکھان واقعہ کو دو روز گزر گئے تاحال سرکاری سطح پر کسی قسم کی پیش رفت اور قاتلوں کی گرفتاری کا کوئی عمل سامنے نہیں آسکا ہے- دوسری جانب قتل ہونے والے افراد کے لواحقین لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ وزیر اعلی سیکٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں-

بارکھان واقعہ کے خلاف لواحقین نے گذشتہ روز لاشوں کو لیکر کوئٹہ پہنچے تھے جہاں دھرنے کا سلسلہ آج دوسرے روز بھی جاری رہا- کوئٹہ دھرنے پر بیٹھے لواحقین کا کہنا ہے کہ جب تک سردار کھیتران کو حکومت سے ہٹاکر گرفتار نہیں کیا جاتا دھرنا جاری رہیگا جبکہ بارکھان شہر میں بھی شہری گذشتہ روز سے دھرنے پر بیٹھے ہوئے اور واقعہ میں ملوث سردار کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے ہیں-

واقعہ کے خلاف بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں بھی شہریوں کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے شرکت کی۔ ادھر تونسہ شریک میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ہے-

واضح رہے گذشتہ روز بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ سے تین لاشیں برآمد ہوئی تھی جہاں بعد میں تینوں لاشوں کی شناخت کوہلو کے رہائشی خان محمد مری کے اہلیہ گراناز، دو بیٹوں محمد نواز اور عبدالقادر کے ناموں سے ہوئی تھی- لواحقین کے مطابق مذکورہ افراد صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے نجی جیل میں اپنے دیگر 5 رشتہ داروں کے ہمراہ قید تھے۔

لاشوں کی برآمدگی کے بعد سے بلوچستان میں مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں مظاہرین عبدالرحمان کھیتران کی حکومت سے برطرفی اور فوری گرفتاری کا مطالبہ کررہے ہیں جبکہ سردار عبدالرحمان کے قید میں موجود خان محمد مری کے دیگر بچوں اور رشتہ داروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں-