سندھ حکومت عدالت عبدالحفیظ کو تحفظ فراہم کرے، واقعہ میں ملوث اہلکاروں کو سزا دے۔ فاطمہ بلوچ

232

جمعہ کے روز کراچی پریس کلب میں لاپتہ عبدالحمید زہری کی بیوی اور عبدالحفیظ زہری کی ہمشیرہ فاطمہ بلوچ نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماؤں ماما قدیر بلوچ، سمی دین محمد اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے وہاب بلوچ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میرے بھائی عبدالحفیظ زہری جسے گزشتہ سال 27 جنوری کو متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی کے کچھ مہینے بعد کراچی میں منظر عام پر لایا گیا اور اس پر بے بنیاد الزام لگا کر اسے جیل میں قید کر دیا گیا، تب سے وہ اپنے اوپر جعلی کیسز کی باقاعدہ پیروی کرتے رہے ہیں اور عدالت میں پیش ہوتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تین فروری کو جب کورٹ نے اسکے ریلیز آرڈر جاری کردیئے تو ہم اسکو لینے کراچی سینٹرل جیل گئے، اور وہاں جیل سے نکلتے ہی ہم پہ ویگو گاڑیوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے مسلح افراد نے حملہ کر دیا تھا۔

فاطمہ بلوچ نے کہا کہ اس دن یہ مسلح افراد میرے بھائی حفیظ زہری کو دوبارہ اغواء کرنے یا اغواء میں ناکامی کی صورت میں اسے باقاعدہ قتل کرنے کی نیت سے حملہ آور تھے، اس حملے میں میرے بھائی عبدالحفیظ سمیت ہم گھر والے شدید زخمی ہوئے تھے، اور واقعے کے تمان تر ثبوت اور شواہد آن دی ریکارڈ موجود ہیں اور میڈیا پہ وائرل ہو چکے ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کراچی جیسے جم غفیر اور گنجان شہر میں میرے بھائی پہ کس طرح جان لیوا حملہ کیا گیا۔

انکا کہنا تھا کہ ہمارے آج کے اس پریس کانفرنس کے تین اہم مطالبات ہیں، جو ہم حکام بالا اور سندھ حکومت سے کرنا چاہتے ہیں کہ عبدالحفيظ زہری کو اس ملک کے ایک پر امن شہری اور کورٹ سے بری یافتہ شخص کی حیثیت سے تحفظ فراہم کیا جائے، اور اس پہ دوبارہ ایسے حملوں نا ہونے کی یقین دہانی کرائی جائے، اس واقعے میں ملوث تمام کرداروں کو قانونی دائرے کے مطابق سامنے لایا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے، سی ٹی ڈی کی جواب طلبی کیجائے جو اس واقعے سے پہلے بھی ہمیں مسلسل تنگ کرتی آ رہی ہے، جس طرح ہمارے گھر میں چھاپہ مارا گیا اور میرے شوہر عبدالحميد زہری کو غیر قانونی حراست میں لے کر جبری لاپتہ کیا گیا –

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ میرے شوہر اور ہمارے گھر کے واحد کفیل عبدالحمید زہری کو جلد از جلد منظر عام پر لایا جائے اور اسے رہا کیا جائے –