اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’خواتین اور لڑکیوں کو باہر رکھنے اور خاموش کرنےکے اقدامات افغان عوام کی صلاحیتوں کے لیے بہت زیادہ نقصان اور بڑا دھچکا ہیں۔‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان میں خواتین پر یونیورسٹیوں کی تعلیم اور امدادی گروپوں(این جی اوز) کے لیے کام کرنے پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے خواتین اور لڑکیوں کی تمام شعبوں میں مکمل، مساوی اور بامعنیشرکت پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق منگل کو 15 رکنی کونسل کی جانب سے اتفاق رائے سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہافغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے ہائی سکول اور یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی ’انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی خلافورزی ہے۔‘
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے خواتین اور امدادی تنظیموں پر طالبان کی پابندی کے حوالے سے بات کرتے ہوئےایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’یہ ناقابل جواز انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں اور انہیں ختم کیا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’خواتین اور لڑکیوں کو باہر رکھنے اور خاموش کرنے کے اقدامات افغان عوام کی صلاحیتوں کے لیے بہت زیادہنقصان اور بڑا دھچکا ہیں۔‘
طالبان حکام کی جانب سے خواتین پر ان پابندیوں کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب نیویارک میں سلامتی کونسل گذشتہ ہفتےافغانستان پر اجلاس میں سر جوڑ کر بیٹھی تھی۔
افغانستان میں مارچ سے لڑکیوں کے ہائی سکول جانے پر پابندی عائد ہے جبکہ گذشتہ ہفتے افغان وزارت برائے اعلیٰ تعلیم نے ایکاعلامیے میں کہا تھا کہ یونیورسٹیوں میں خواتین کی تعلیم حاصل کرنے پر تاحکم ثانی پابندی ہوگی۔
بعدازاں 24 دسمبر کو طالبان انتظامیہ نے تمام مقامی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو بھی حکم دیا تھا کہ وہخواتین ملازمین کو کام پر آنے سے روک دیں۔
کونسل نے کہا کہ امدادی گروپوں کے لیے کام کرنے والی خواتین کارکنوں پر پابندی سے ملک میں انسانی بنیادوں پر جاری منصوبوںپر اہم اور فوری اثر پڑے گا، جن میں اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔
سلامتی کونسل نے افغانستان میں اقوام متحدہ کے سیاسی مشن (یو این اے ایم اے) کے لیے اپنی مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئےکہا: ’یہ پابندیاں طالبان کی جانب سے افغان عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کی توقعات سے بھیمتصادم ہیں۔‘
لاکھوں افغانوں تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کرنے والے چار بڑے عالمی امدادی گروپوں نے اتوار کو کہا تھا کہ وہ اپنیکارروائیاں اس لیے معطل کر رہے ہیں کیونکہ وہ خواتین عملے کے بغیر اپنے پروگرام چلانے سے قاصر ہیں۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق مشن کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ ایسی پالیسیوں کے ’خوفناک‘ نتائج برآمد ہوں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے ایک بیان میں کہا: ’کوئی بھیملک اپنی نصف آبادی کو پابندی کا شکار بنا کر سماجی اور اقتصادی طور پر ترقی نہیں کر سکتا بلکہ حقیقتاً اپنا وجود بھی قائمنہیں رکھ سکتا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’خواتین اور لڑکیوں پر لگائی جانے والی یہ ناقابل قبول پابندیاں نہ صرف تمام افغان شہریوں کے مصائب میںاضافہ کریں گی بلکہ مجھے خدشہ ہے کہ اس سے افغانستان کی سرحدوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ایسی پالیسیوں سے افغان معاشرے کو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔
ترک نے خبردار کیا کہ خواتین پر این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی سے کئی خاندانوں کی آمدنی چھین جائے گی اور ساتھ ہیضروری خدمات کی فراہمی کے لیے تنظیموں کی صلاحیت کو بھی نمایاں طور پر نقصان پہنچے گا۔
ان کے بقول اس اقدام سے افغانستان میں سردیوں میں عوام کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی اور یہ وہ وقت ہے جب یہاں انسانیامداد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
ترک نے مزید کہا کہ ’خواتین اور لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا اور ڈی فیکٹو حکومت کی طرف سےانہیں خاموشی سے اور چھپا کر رکھنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔‘