خان محراب خان اور بلوچ مزاحمت ۔ بالاچ بلوچ

422

خان محراب خان اور بلوچ مزاحمت

تحریر: بالاچ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آزادی ہر قوم کیلئے اجتماعی خوشی اور مقدس ترین نعمت ہوتی ہے، آزادی کے حصول اور قومی بقا کیلئے قوموں کی زندگی میں بعض اوقات ایسے مرحلے بھی آتے ہیں جب اس عظیم حصول کے خاطر اپنے وجود کے احساس تک کو مٹانا پڑتا ہے اور اس وقت وجود محض قومی بقا اور آزادی کا نام بن جاتا ہے۔

آزادی کا تصور اتناہی پرانا ہے جتناکہ وطن کا تصور، تاریخ میں ہمیں ایسے بہت سے عظیم قوموں کے عظیم شخصیات ملتی ہیں کہ جنہوں نے قومی آزادی کے خاطر غلامی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اپنی سروں کا نظرانہ پیش کرتے ہوئے اپنے خون سے اپنی زمین کا تحفظ کرکے قوم کو غلامی کی دلدل سے نکال کر عظیم بنایا۔

بلوچوں کی سرزمین بلوچستان میں آزادی کے مزاحمت کی ابتدا 1839 کو ہوتی ہے جب انگریر سامراج کی فوج بلوچوں کے ننگ و ناموس پر ڈاکہ ڈالنے بلوچ سرزمین کی طرف بڑھ رہی ہوتی ہے تو مادرگلزمین کے نڈر و بہادر فرزند خان محراب خان 13 نومبر 1839 کو بلوچ سرزمین کی حفاظت و قومی بقا اور سربلندی کیلئے انگریز لشکر کے خلاف لڑکر ساتھیوں سمیت شہید ہوتاہے اور دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ بلوچ اپنی سرزمین و نگ و ناموس کی تحفظ کے خاطر اپنے سروں کی قربانی تو دے سکتا ہے مگر کسی بھی طاقتور دشمن کے سامنے سر خم ہوکر اس کی غلامی ہرگز قبول نہیں کرسکتا۔

خان محراب خان بلوچوں کا وہ آزاد و خودمختار حکمران تھا جس نے نہ افغانستان کی بالادستی کو قبول کیا نہ کہ انگریز سامراج کے سامنے سر جھکایا بلکہ ایک غلام بلوچستان میں ذلت کی زندگی گزارنے کی بجائے اس کی آزاد فضاؤں میں مرجانے کو ترجیح دی اور اسی مزاحمت کو بعد میں نواب خیربخش نے جدت بخش کر بلوچ سرزمین کی تحفظ اور قومی بقا کی جنگ جاری رکھتے ہوئے بلوچ نوجوانون کو قومی بقا کی خاطر وہ راہ دیکھایا جس راہ پر چل کر خان محراب خان اور اس کے ساتھی ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے تھے۔

واضح رہے کہ ریاست قلات برصغیر کا حصہ نہیں تھی بلکہ انگریز حاکموں کے ہاں اس کی ایک الگ حیثیت تھی۔ اس لیے جب 3 جون1947 کو ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوا تو اس کے مسودے میں ریاست قلات کا نام شامل نہیں تھا۔ آخری خان قلات احمد یار خان نے انگریز حکومت سے برصغیر کے معاملے سے علیٰحدہ بات چیت کر کے اپنی ریاست کی خودمختار حیثیت کیلئے کوشش کی، اور آل انڈیا ریڈیو نے 11 اگست 1947 کو ریاست قلات کی آزادی کی خبر نشر کی تھی ۔

11 اگست 1947 کو انگریز سے آزادی حاصل کرنے کی مختصر عرصے بعد 27 مارچ 1948 کو نومولود سامراجی ریاست پاکستان نے مکر و فریب کا سہارہ لے کر بلوچستان پر حملہ کرکے بزاروں بلوچ فرزنداں کو شہید کرکے بلوچستان پر قبضہ جمایا، بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ اسٹوڈنٹس، پروفیسرز، ڈاکٹر اور ایڈووکیٹ ریاستی ظلم و جبر کا نشانہ بنے اور ہزاروں بے گناہ لاپتہ بلوچ نوجوان، بچے،بوڑھےاور عورتیں دشمن کے قید خانوں میں غیر انسانی تشدد کا شکار ہوئے اور تسلسل کے ساتھ لاپتہ بلوچ فرزندوں کی لاشیں برآمد ہوئے جس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔

قابض سامراج کے خلاف 1948 کو شروع ہونے والی آزادی کا جنگ 1958، 1962 اور 1973 سے تسلسل کے ساتھ تحریک نے نئی رنگ لیکر موجودہ پرآشوب تحریک آزادی کو روح بخشی ہے۔

دنیا کی باقی اقوام کی طرح بلوچ قوم 13 نومبر کی مناسبت سے اپنے عظیم شہداء آزادی سے دلی عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر سال اسی دن اپنے شہداء سے یہ عہد کرتی ہے کہ ان کے چنے ہوئے راستے کو اختیار کرکے بلوچ عوام کو ایک آزاد، پرامن اور خوشحال بلوچستان دیں گے.

قومی آزادی کی حصول کی خاطر آپنی قیمتی جانوں کو قربان کرنے والے تمام بلوچ شہداء کو سرخ سلام۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں