بولان چوتھے روز بھی مکمل فوجی محاصرے میں، شدید غذائی قلت

810
فائل فوٹو

بلوچستان کے علاقے بولان میں پاکستانی فوج کا آج چوتھے روز بھی آپریشن جاری ہے۔ فوج کا بولان کو مختلف علاقوں سے مکمل محاصرے میں لینے کی اطلاعات ہیں۔ آمدو رفت کے تمام راستے بند کردیئے گئے ہیں۔ اس دوران بڑی تعداد میں جنگی ہیلی کاپٹروں کو فضاء میں گردش کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

علاقائی ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق، آمدورفت کے تمام راستے بند ہونے کی وجہ سے، علاقے میں شدید غذائی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ پورے علاقے میں کرفیو کا سا سماں ہے۔ آبادیوں پر سخت پھیرے دیئے جارہے ہیں۔ اس دوران بیماروں کو سخت تکالیف کا سامنا ہے، جنہیں ادویات و ڈاکٹروں تک رسائی نہیں دی جارہی۔

باخبر ذرائع سے موصول اطلاعات کے مطابق، پورے علاقے میں وقتاً فوقتاً شدید بمباری کی آوازیں آرہی ہیں۔ جسکی وجہ سے عام شہریوں کی جانی و مالی نقصانات کی اطلاعات آرہی ہیں۔

مصدقہ ذرائع سے یہ بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں گلہ بانوں کو گھروں سے گھسیٹ کر فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے، قتل کیا جارہا ہے اور یہ شبہہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ عام شہریوں کو بلوچ جہدکار ظاہر کیا جائیگا۔

گذشتہ روز پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے علاقے میں آپریشن کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلح جھڑپوں میں دو ایس ایس جی کمانڈوز ہلاک ہوئے ہیں۔ آئی ایس پی آر نے چار بلوچ آزادی پسندوں کے مارے جانے کا بھی دعویٰ کیا تھا تاہم آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

فوجی آپریشن بولان کے علاقوں کمان، اوچ کمان، یخو، بزگر و دیگر سمیت ہرنائی سے متصل پہاڑی علاقوں میں کی جارہی ہے جبکہ آج سبی سے متصل پہاڑی سلسلوں میں ہیلی کاپٹروں کی آمدرفت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

بولان و گردنواح میں آپریشن کا آغاز ایسے وقت کیا گیا ہے جب بلوچ لبریشن آرمی نے گذشتہ دنوں زیر حراست دو پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کی رہائی کے بدلے اپنے مطالبے کے لیے 4 نومبر تک کا آخری الٹی میٹم دیا۔

یاد رہے کہ 25 ستمبر 2022 کی رات ہرنائی کے علاقے زردآلو کے مقام پر مسلح افراد نے مرکزی شاہراہ پر ناکہ بندی کرتے ہوئے گاڑیوں کی تلاشی لی اورشناخت کے بعد دو افراد کو اپنے ہمراہ لے گئے جبکہ مسلح افراد نے کوئلہ لیجانے والی چار ٹرکوں کے ٹائر بھی تباہ کردیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد پاکستان فوج نے آپریشن کا آغاز کیا جہاں آپریشن میں حصہ لینے والے دو میں سے ایک ہیلی کاپٹر کو مسلح افراد نے مار گرایا، ہیلی کاپٹر تباہ ہونے کے نتیجے میں پاکستان فوج کے چھ اہلکار ہلاک ہوگئے تھے-

مذکورہ افراد کو حراست میں لینے و کوئلہ ٹرکوں پر حملے اور ہیلی کاپٹر کو مار گرانے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے بعد ازاں ایک بیان میں بلوچ سیاسی اسیران کے رہائی کے بدلے ان قیدیوں کو رہا کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔

گذشتہ دنوں بی ایل اے کے ترجمان نے میڈیا کو بھیجے گئے ایک اور بیان میں کہا کہ بی ایل اے پاکستانی فوج کو جنگی قیدیوں کے تبادلے کیلئے مزید ایک ہفتے کی مہلت دیتی ہے، جس کے فوری بعد بی ایل اے کے زیر حراست جنگی قیدیوں جونیئر کمیشنڈ آفیسر کلیم اللہ اور ملٹری انٹلجنس ایجنٹ محمد فیصل کو بلوچ قومی عدالت سے ملنے والی سزا پر فوری عملدرآمد کی جائیگی-

یاد رہے کہ بلوچ قوم پرست تنظیمیں اور انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں متعدد بار پاکستانی فوج پر یہ الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ بلوچ مزاحمتکاروں پر آپریشن کے نام پر بلوچستان کے دیہی علاقوں کے عام شہریوں پر بمباری کی جاتی ہے اور اس دوران گرفتار و جانبحق افراد کو مزاحمتکار ظاہر کیا جاتا ہے۔