اقوام متحدہ کی رپورٹ میں چین کے سنکیانگ میں حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام

280

اقوام متحدہ نے چین کے خطے سنکیانگ میں مبینہ طور پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اہم رپورٹ جاری کرتے ہوئے تشدد کے الزامات کو درست قرار دیا ہے اور اس عمل کو انسانیت کے خلاف ممکنہ جرائم کا حوالہ دیا ہے مگر اس کو نسل کشی کہنے سے گریز کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق طویل عرصے کے بعد جاری ہونے والی رپورٹ میں چین کے دور دراز مغربی خطے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے ذکر کے ساتھ ساتھ سرگرم گروپوں، مغربی ممالک میں جلاوطن ایغور کمیونٹی کی طرف سے طویل عرصے سے لگائے جانے والے بہت سے الزامات پر اقوام متحدہ کی مہر لگائی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایغور کمیونٹی اور دیگر مسلمان برادریوں کے اراکین کے ساتھ ناروا سلوک اور امتیازی حراست بین الاقوامی جرائم، خاص طور پر انسانیت کے خلاف جرائم کو جنم دے سکتے ہیں

رپورٹ میں عالمی برادری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اب دنیا کو سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی صورتحال پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی سربراہ مشل بیچلیٹ نے فیصلہ کیا کہ سنکیانگ کے ایغور خود مختار خطے میں صورتحال کی مکمل تشخیص کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو تیار ہونے میں ایک سال لگا ہے اور رپورٹ جاری ہونے کی چین نے سخت مخالفت کی ہے۔

مشل بیچلیٹ نے عزم کیا تھا کہ یہ رپورٹ رواں سال اگست میں ان کے اقوام متحدہ میں بحیثیت سربراہ انسانی حقوق کی مدت پوری ہونے سے قبل جاری کی جائے گی اور انہوں نے جنیوا میں کچھ وقت گزارتے ہوئے 13 منٹس میں رپورٹ جاری کرکے ایسا ہی کیا۔

اے ایف پی کو لکھی گئی ای میل میں مشل بیچلیٹ نے کہا کہ ’میں نے کہا تھا کہ اپنی مدت پوری ہونے سے قبل میں یہ رپورٹ جاری کروں گی اور میں نے کر دکھایا۔‘

انہوں نے کہا کہ کچھ ریاستوں کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو سیاست کی نظر کرنا مددگار ثابت نہیں ہوگا۔

تشدد کے الزامات ’قابل اعتبار‘

چین پر کافی عرصے سے اپنے اس خطے میں ایغور برادری سمیت دیگر 10 لاکھ افراد کو حراست میں رکھنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے جبکہ بیجنگ سختی سے ان الزامات کی تردید کرتا آیا ہے اور وضاحت پیش کی ہے کہ انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے پیشہ ورانہ مراکز چلائے جارہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی حکومت کی جانب سے انسداد دہشت گردی اور انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملیوں کے اطلاق کے تناظر میں سنکیانگ کے خود مختار ایغور خطے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا گیا ہے۔

تشخیص میں چین کے نام نہاد پیشہ ورانہ تعلیمی اور تربیتی مراکز میں قید لوگوں کے علاج پر سنگین خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشدد یا بدسلوکی کے الزامات، بشمول جبری طبی علاج اور حراست کے منفی حالات، قابل اعتبار ہیں، جیسا کہ جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد کے انفرادی واقعات کے الزامات سامنے آئے ہیں۔

تاہم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ چین کے پیشہ ورانہ تعلیمی و تربیتی مراکز میں کتنے لوگ متاثر ہیں مگر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پورے خطے میں یہ سسٹم وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔

ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عمر کنات نے کہا کہ یہ رپورٹ ایغور بحران پر بین الاقوامی ردعمل کے لیے گیم چینجر ہے۔

انہوں نے کہا کہ چینی حکومت کے سخت تردیدوں کے باوجود، اقوام متحدہ نے اب باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ خطے میں ہولناک جرائم ہو رہے ہیں۔

ایغور کون ہیں؟

چین کے جنوبی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی برادری ‘ایغور’ آباد ہیں جو صوبے کی آبادی کا 45 فیصد ہیں۔

سنکیانگ سرکاری طور پر چین میں تبت کی طرح خودمختار علاقہ کہلاتا ہے۔

کئی سال سے ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ایغور سمیت دیگر مسلم اقلیتوں کو سنکیانگ صوبے میں قید کرلیا جاتا ہے لیکن چین کی حکومت ان خبروں کو مسترد کر رہی ہے۔