عورت اور سماج
تحریر: سمیرا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عورت اور سماج ڈاکٹر جلال بلوچ کی ایک بہترین کتاب ہے، بلوچ معاشرے کے سیاست اور تحریک میں ان بلوچ خواتین کے جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک بہترین کاوش ہے۔ اسں کتاب کو ہر بلوچ عورت اور مرد کو پڑھنی چاہیے۔ اگر ہم ایک آزاد ملک ہوتے تو یہ کتاب لازما ہمارے ہر تعلیمی اداروں کے لائبریریوں میں ضرور رکھی ہوتی۔ اس کتاب کو ہر سیاسی پارٹی کے کارکنوں کو پڑھنی چاہیے اور اس مسئلے پر غور و فکر کرناچاہیے، کہ بلوچ معاشرے میں بلوچ خواتین کی سیاست میں شراکت کیوں آٹے میں نمک جتنی ہے؟
اس مسئلے کو صرف غور و فکر تک ہی محدود نہیں رکھنی چاہیے، بلکہ اس پے عملی طور پر کام شروع کرکے اس مسئلے کے خاتمے کے لیے کام بھی شروع کرنی چاہیے۔
ہمیں پہلے یہ غور کرنا چاہیے کہ کیوں ہماری سیاسی پارٹیاں سیاسی انسٹیٹیوٹ قائم کرنے میں اب تک ناکام ہوۓ ہیں؟ ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب سے پہلے میں ایک کتاب ، ” انگولا کی آزادی ” کا مطالعہ کر رہی تھی۔ تو اس میں قابل غور اور قابل ستائش پڑھنے کو یہ ملا، کہ انگولا کے آزادی پسند تنظیم نے اپنے لوگوں کو سیاسی شعور دینے کے لیے انسٹیٹوٹ قائم کیے تھے اور ان میں عورتوں، بچوں، بزرگ غرض کہ ہر ایک طبقے کہ لوگ چاہے مزدور ہو یا کسان سب کو سیاسی اور انقلابی شعور دیا جاتا تھا۔
یہاں تک جب الف ، ب پڑھائی جاتی تھی تو اس میں بھی ایک سیاسی پیغام ہوتا تھا۔ ہماری بلوچ قوم میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے، اور ہماری سیاسی نااہلی کا عالم یہ ہے، کہ ہم اپنے بلوچ قوم کے لوگوں میں اس تحریک سے متعلق ابھی تک پوری طرح سیاسی اور انقلابی شعور بیدار ہی نہیں کرسکے ہیں۔ ہر ملک کی آبادی کا تقریباً آدھا حصہ عورتیں ہوتی ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ عورتوں کے سرگرم ہوۓ بغیر کسی بھی انقلاب کی کامیابی ناممکن ہے، تو ہم کیوں اب تک ہر بلوچ کوسیاسی زانت دینے میں ناکام ہیں؟
اگر ہم دیکھیں،تو اب کے اس تحریک میں ہماری بلوچ مائیں اور بہنیں بھی جدوجہد کا حصہ ہیں، لیکن انکی تعداد مٹھی بھر جتنی ہے۔ ہاں ہم اپنے سیاسی درسگاہیں قائم نہیں کرسکتے، جس میں ہم ان بلوچ ماؤں اور بہنوں کو سیاسی شعور دے سکیں جو گھر میں بیٹھ کر دستکاریاں کرتی ہیں، یا جو کھیتوں میں جاکر کام کرتے ہیں ،یا پھر ایک چرواہے کو کیسے قومی تحریک کے حوالے سے شعور دیں؟ یا ان بلوچ لڑکیوں کو جو اسکولوں اور کالج میں مطالعہ پاکستان کی کتابیں پڑھتے ہیں، اور اپنے قومی و ثقافتی اور اپنے بنیادی حقوق سے بےزانت ہیں۔ اس بات کا مجھے اندازہ ہے، کہ ہم محکوم قوم ہو کر سیاسی درسگاہیں نہیں بنا سکتے جہاں ہم کھلے عام سیاسی تعلیمات دے سکتے ہوں۔لیکن سیاسی پارٹیاں اپنے ورکرز کے ذریعے تو یہ کام کر سکتے ہیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ سواۓ ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ کے کوئی اور بلوچ زالبول مستقل طور پر اپنی آواز کو مظالم کے خلاف بلند نہیں رکھتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ حسیبہ بلوچ کی آواز اتنی مضبوط و توانا ہو گئی تھی کہ بالآخر ریاست کو اسکے بھائیوں کو ازیت خانوں سے نکالنے پر مجبور کر دیا، اسی طرح نرگس فیاض کی جدوجہد نے اسکے شوہر کو ریاستی عقوبت خانوں سے آزادی دلائی۔ لیکن اتنی مضبوط اور توانا آوازیں اب کیوں باقی اسیران کے لیے گونج نہیں رہی ہیں۔ کیوں انکی آواز صرف ایک ٹوئٹ کرنے کی حد تک محدود ہو گئیں ہیں؟کیوں وہ اب بلوچ مسنگ پرسنز کے ریلیوں میں دیکھائی نہیں دے رہی ہیں؟
بلوچ تحریک کو ہر بلوچ تک چاہے وہ کسی گدان میں بیٹھا ہے یا کسی محل میں ان تک پہنچنے اور ہر طبقے کو تحریک سے متعلق شعور دینے میں ہمارے شاعروں کے کردار قابل تحسین ہے، اسی طرح اب ہمارے سیاسی ورکرز اور سیاسی پارٹیوں کو سیاسی شعور دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت کرنی چاہیے ، کیونکہ قوم ایک ہجوم کی مانند ہے، لیڈر ہی انکو سہی راہ پر چلنے کا درس دے سکتا ہے۔ بلوچ قوم میں عورت کی عزت اور مقام بہت بلند ہے۔ جسطرح بلوچ خواتین بلوچ سیاست اور تحریک میں بیشک انکی تعداد اس وقت بہت ہی کام ہے، لیکن وہ اپنی استقامت اور جرات سے اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ جو قابل ستائش ہے۔ ان بلوچ ماؤں کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کی جائے، اور بلوچ سیاست میں انکو بھی برابری کا حق دیا جاۓ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں