نمبر ون کے نمبر دو کارنامے ۔ منیر بلوچ

231

نمبر ون کے نمبر دو کارنامے

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یشار کمال ناول اناطولیہ کہانی میں ایک جگہ کہتے ہیں کہ ڈاکو کبھی پولیس مقابلے میں نہیں پھنستے بلکہ ان کو لے مرتے ہیں. یہ ڈائیلاگ کہانی، فلم اور ڈرامے کے علاوہ حقیقی زندگی کی بھی عکاس ہے کہ جب آپ کہیں سنتے ہیں کہ فلاں ڈاکو پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے تو سمجھ جائیں کہ اپنی نا اہلی چھپانے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے. یہ جعلی مقابلے زیادہ تر پاکستان میں ہی رونما ہوتے ہیں کیونکہ اس ملک کی آرمی اور پولیس مقابلے کی سکت اور ہمت نہیں رکھتی اور اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے قیدیوں یا جبری گمشدگی کے شکار افراد کو جعلی مقابلے میں شہید کرکے تمغہ امتیاز کی حقدار ٹہرتی ہے۔

سنہ 1971 کو بہادری کی تاریخ رقم کرنے والی آرمی نے جرات اور بہادری کا ایک نیا کارنامہ اس وقت سر انجام دیا جب 12 جولائی 2022 کو زیارت کے علاقے ورچوم سے فوج کا لیفٹینٹ کرنل بلوچ قومی فوج نے اغوا کرلیا اور اسکی ذمہ داری قبول کرلی بعد از تفتیش اس بہادر افسر کو سزائے موت سنا دی. اس واقعے کے بعد اس خطے کی نمبر ون و بہادر آرمی کے لئے لازمی امر تھا کہ اغوا کاروں کا تعاقب کرکے انہیں سزا دیں اس کے لئے انہوں نے بارش کے دوران دشوار گزار راستوں کا سفر کرکے نہ صرف اغوا کاروں کو قابو کرلیا بلکہ دوران مقابلے ان کو قتل بھی کردیا لیکن افسوس اپنے افسر اور ان کے ساتھ اغوا ہونے والے ان کے کزن کو نہ بچا سکے.

دوران آپریشن تاریخ رقم کرنے والی آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے بیان کے مطابق زیارت آپریشن کے دوران بلوچ قومی فوج سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کیا گیا جبکہ بی ایل اے نے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے اس بیان کی نفی کردی.

بلوچ سماج کے وہ افراد جو بلوچستان کی سیاسی و جنگی حالات سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں یا بہادر آرمی کے ماضی سے بھرپور واقفیت رکھتے ہیں وہ جان چکے تھے کہ بہادر آرمی نے بہادری کا وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو ان کا وطیرہ رہا ہے جعلی مقابلے کی آڑ میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کو نشانہ بنا کر انہیں سرمچار ظاہر کیا ہے جبکہ لاپتہ افراد کے لواحقین اس پریشانی میں مبتلا تھے کہ جعلی مقابلے کی آڑ میں ان کے پیاروں کو قتل کردیا گیا ہے اور حقیقت میں وہی ہوا جس کارنامے کو انجام دینے میں خطے کی نمبر ون آرمی مشہور ہے.

واقعی یہ آرمی نہ صرف خطے بلکہ دنیا کی نمبر ون آرمی ہے لیکن باعث افسوس یہ کہ اس نمبر ون کے کارنامے ہمیشہ نمبر دو ہی رہے ہیں. جب بھی کہیں دیکھیں انہوں نے مقابلے میں کسی کو شہید کیا ہے تو آپ سمجھ جائیں کہ انہوں نے کسی قیدی کو قتل کردیا ہے کیونکہ جو نمبر ون ہوتا ہے اسکے کارنامے صرف کہانیوں میں ہی ہوتے ہیں اور یہ کارنامے ہمیشہ دو نمبر ہی ہوتے ہیں ماضی بھی گواہ ہے اور حال بھی گواہ ہے اگر وطیرہ تبدیل نہیں کیا تو مستقبل بھی گواہ ہی رہے گا.

اگر کوئی ڈاکو جس کا مقصد صرف لوٹ مار ہے وہ اکیلا مرنے کے بجائے وردی میں ملبوس افراد کو مارتا ہے لیکن یہاں آپکا مقابلہ کسی ڈاکو سے نہیں ہورہا بلکہ وطن کی مٹی کی محبت سے سرشار ایک انقلابی جہد کار سے ہورہا ہے جسکی زندگی کا مقصد اس کی سرزمین سے خونی درندوں کا انخلاء اور آزادی وطن کا قیام تو وہ ضرور تم سے مقابلہ کریں گا اور تم کو وہ سبق یاد کرائے گا جو اس نے نوشکی و پنجگور میں گھس کر مارا تھا۔

اس نمبر ون کے کارنامے دو نمبر ہیں اور جو لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ء ہیں کہ کبھی یہ نمبر ون نمبر ون کارنامہ دکھا دے گا تو یہ انکی بھول ہے ان کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بلوچستان سے نکل جائیں کیونکہ انہیں ویسے ہی نکلنا ہے اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ عزت کے ساتھ نکلیں گے یا پتلون والی تاریخ دہرا کر ایک اور تمغہ بہادری اپنے سینے پر سجائیں گے.



دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں