جبری گمشدگیوں کے حوالے سے کمیٹی کا رویہ غیر جموری و باعث تشویش ہے ۔ وی بی ایم پی

213

وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کے چیئرمین نصرااللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے ہفتے کے روز کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف جاری احتجاجی کیمپ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی سطح پر لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے جس کے تین میٹینگز ہوئے ہیں جس میں مختلف تنظیموں کے نمائندوں کو مدعو کرکے انکے تجاویز کو سنا گیاہے لیکن کمیٹی نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کو میٹینگز میں مدعو کیاہے اور نہ ہی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ہماری پوائنٹ آف ویو لیاگیا ہے ہم سمجھتے ہے کہ کمیٹی کا یہ رویہ غیر جموری طرز اور باعث تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے سب سے زیادہ متاثر بلوچستان ہے اور بلوچستان سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جبری طور پر لاپتہ ہے اور تنظیم انکی نمائندگی کررہا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی لاپتہ افراد کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک طویل جد و جہد ہے تنظیم لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک دنیا کی طویل ترین لانگ مارچ کیا ہے اور تنظیم کے قائم احتجاجی کیمپ کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے آج 4700 دن مکمل ہوگئے ہیں یعنی تنظیم کی احتجاجی کیمپ 13 سالوں سے مسلسل جاری ہے اسکے علاوہ تنظیم نے مختلف صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے ساتھ ملاقاتوں میں پاکستان بھر سے لاپتہ ہونے والے افراد کے مسئلے کو بہترین انداز میں پیش کرتے آرہا ہے اور ساتھ میں لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی کمیشن اور اعلی عدلیہ سمیت انصاف کے لیے بنائے گئے دیگر اداروں میں نمائندگی کررہا ہے اسلیے وفاقی سطح پر لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی کا تنظیم کو نظر انداز کرنا ناانصافی اور بلوچستان سے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوگا۔

انہوں نے وفاقی سطح پر لاپتہ افراد کے لیے بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کو پارلیمانی کمیٹی کے میٹینگز میں مدعو کرنے کے ساتھ تنظیم کے تجاویز کو سنا جائے۔ اور کمیٹی چاروں صوبوں کا دورہ کرے اور لاپتہ افراد کے اہلخانہ سے ملاقاتیں کرکے انکے کرب و اذیت اور مشکلات کو انکے زبانی سنیں ۔

انہوں یہ تجویز دی کہ پارلیمانی کمیٹی کو اس چیز کا پابند ہونا چاہیے کہ وہ لاپتہ افراد کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کا موقف سنیں اور پارکیمانی کمیٹی جو ہتمی تجاویز مرتب کرے ان پر بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کے بعد وہ تجاویز حکومت کو فراہم کرے۔