انوار الحق کاکڑ اور بلوچستان کا مثبت چہرہ ۔ محمد عمران لہڑی

660

انوار الحق کاکڑ اور بلوچستان کا مثبت چہرہ

تحریر: محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان وہ واحد خطہ ہے، جہاں اس ملک سے وفاداری کے نام پر جو بھی غیر قانونی، غیر انسانی اور ناانصافی پر مبنی جتنے عمل، کردار اور سرگرمی کرنا ہے بلا روک ٹوک کرسکتے ہو، بھلے وفاداری نمائشی کیوں نہ ہو، بس ایک کام کرنا ہے خود کو اس ریاست کا محب وطن پیش کرنا ہے، نمائشی جھنڈے گاڑھنا ہے، دکھاوے کا ریلی نکالنا، نعرے لگانا، گاڑیوں پر بڑے بڑے پاک ملت کی سفید سبز رنگ کا جھنڈا وقتی طور پر لگانا، بلند و بانگ تقریر کرنا ہے۔ اچھے تقریر میں ضرور ان کے خلاف اپنی زبان کو حد سے زیادہ دراز کرنا ہے جو بلوچستان میں جاری کشت وخون کے خلاف بولتا ہے، ظلم کے خلاف لکھتا ہے، ناانصافیوں پر آواز اٹھاتا ہے، ماورائے عدالت قتل اور لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کرتا ہے، ساحل وسائل پر اپنی حاکمیت کا نعرہ بلند کرتا ہے، اپنی قومی تشخص کی حفاظت کرتا ہے، اپنے قومی ہیروز کے کردار، افکار اور قربانیوں کو بیان کرتا ہے، اپنے قومی حقوق کی جنگ لڑتا ہے۔ اس خطے میں ایسے اعمال کے بدلے میں آپ سردار بھی بن سکتے ہو، میر معتبر، ٹکری ایسا سمجھو ایک آزاد علاقے کا بادشاہ بن سکتے ہو، جہاں پھر آپ کی مرضی جو چاہو کرو، قتل کرو، چوری کرو، اسمگلنگ کرو، اغوا کرو، بڑے بڑے ڈارک شیشے والے لینڈکروزروں میں لوگوں کو لاپتہ کرو، رات کی تاریکی میں لوگوں کے گھروں پر ڈاکہ ڈالو، عورتوں کی عصمت دری کرو، کوئی قانون نہ کوئی عدالت آپ کو پکڑ سکتا۔

انوار الحق کاکڑ جو بلوچستان میں بڑے بڑے پوزیشنوں پر رہ چکے ہیں۔ حکومت کی ترجمان سے لیکر سینیٹر کے منصب پر فائز ہوچکے ہیں۔ اندرونی چھوٹے بڑے اداروں کی سربراہی بھی خود کرتا چلا آرہا ہے۔ اس شخص بھی بلوچستان کا ایک آزاد بادشاہ بنایا گیا ہے۔ کیا مجال NAB ایسے آزاد بادشاہوں کے کرپشن میں ملوث ہونے پر عدالت میں طلب کرے۔ تمام ثبوتوں اور گواہوں کے باوجود یہ محب وطن عدالتوں کو ٹھکرا کر گھومتا پھرتا ہے۔ کیونکہ بلوچستان میں سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے وہ سب کچھ کرچکے ہیں اور ایسا کرنے والوں کے لیے کوئی قانون نہیں۔

اس غریب خطے کی یہ حالت ہے کہ اس 21 وی صدی میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں، زندگی کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، یہاں کے باشندے نان شبینہ کا محتاج، اس جدید دور کی جدید ٹیکنالوجی اور جدید علاج کے طریقوں کے باوجود یہاں لوگ ملیریا، ٹائفائیڈ جیسے امراض سے مر رہے ہیں، عورتیں دوران زچگی موت کا شکار ہو رہی ہیں، بچے مال نیوٹریشن کے شکار ہیں۔ لیکن انوار الحق کاکڑ جیسے محب پاکستانی 60 کروڑ کی غبن کر کے بلوچستان کو دنیا کے سامنے یورپی ممالک سے زیادہ ترقی یافتہ پیش کرتا ہے۔

گزشتہ روز ایک جرنلسٹ “کیا بلوچ” نے ٹیوٹر پر ایک جامع انداز میں انوار الحق کاکڑ کی بنائے گئے غیر رجسٹرڈ این جی او “وائس آف بلوچستان” VOB کے لوٹ مار کو سامنے لایا۔ انوار الحق کاکڑ اور اس کی کرپٹ ٹیم نے نمائشی وفاداری کی پاداش میں غریب خطے کی دولت کو انتہائی بیدردی سے لوٹا ہے۔ بلوچستان کے طلباء کو فیس کی مد میں تعلیمی اداروں سے نکالا جاتا ہے لیکن انوار الحق کاکڑ جیسی کالی بھیڑیں پنجاب کے طلباء کے لئے لگژری ٹرپس میں 3 کروڑ کا بجٹ بناتا ہے۔

کیا بلوچ لکھتا ہے کہ دسمبر 2016 سے اکتوبر 2021 کے درمیان اس جعلی این جی او “VOB” نے بظاہر نوجوانوں کے لیے 14 لگژری ٹرپس کا اہتمام کیا اور 2 مرتبہ پنجاب سے نوجوانوں کو بلوچستان گورنمنٹ کے اخراجات پر کراچی اور بلوچستان میں لگژری سیر کرائے۔

کیا بلوچ مزید لکھتا ہے کہ “میں آپ کو بتاتا چلوں کہ وائس آف بلوچستان “VOB” کے ظہور س پہلے Devote Balochistan کے نام سے ایک پروجیکٹ تھا۔ ڈیویٹ بلوچستان کو زکریا محمد حسنی کی بہن سلمٰی حسنی چلا رہی تھی۔ انوار الحق کاکڑ نے اسے ایک طرف کردیا جس کے نتیجے میں سلمی کو اپریل 2017 میں اپنا کام بند کرنا پڑا۔ سلمی کے ایک قریبی دوست نے بتایا کہ انوار الحق کاکڑ کی جانب سے 400 ملین کا غبن کرنے پر سلمی ناراض ہوئی تھی اور انہوں نے احتجاجاً اپنا کام روک دیا۔ یہ تنازعہ تب شروع ہوا جب انوار الحق کاکڑ نے لاہور کے طلباء کیلئے بلوچستان کے دورے ( جنوری 2017) کا انتظام کیا اور دعویٰ کیا کہ اس پروگرام پر 4 کروڑ خرچ آیا ہے۔
اس طرح انوار الحق کاکڑ جواب سے بچنے کے لیے اگست 2017 میں ایک مرتبہ پھر پشاور کے نوجوانوں کا بلوچستان میں لگژری دورہ کرایا۔ یہ سب اخراجات بلوچستان گورنمنٹ Granted Aid کی صورت میں کاکڑ اور VOB کو دیتا رہا۔

سلمٰی کے بعد کاکڑ نے آمنہ ملک نامی ایک خاتون کو اس پروجیکٹ کی دیکھ بھال کرنے کا ٹھیکہ دیا اور یوں یہ دونوں اس منافع بخش کاروبار سے فائدہ اٹھاتے رہے اور آمنہ نے ایک انتہائی بد تمیز ٹرول بریگیڈ بنائی جس کا کام ہر اس شخص کو گالی دینا ہے، جو بلوچستان کے اصل مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔ آمنہ اب تک لاہور اور پشاور کے طلباء کیلئے 2 دوروں کا انتظام کرچکی ہے اور بلوچستان حکومت کے اخراجات پر انہیں کراچی اور گوادر لے کر گئے ہیں، جس پر مجھے بتایا گیا ہے لگ بھگ 7 کروڑ کا خرد برد ہوا۔

یاد رہے پنجاب اور پشاور کے طلباء کے سفری اخراجات کا تمام بیڑہ ایک غریب صوبے نے انوار الحق کاکڑ کی نمائندگی میں اٹھا رکھا تھا اور مقصد بلوچستان کی مثبت امیج کو اجاگر کرنا تھا۔ VOB کے ایک سابق ملازم نے مجھے بتایا کہ آخری ٹرپ پر تقریباً 3 کروڑ کا بجٹ کاکڑ نے بنایا”۔

یہ ہے بلوچستان، جہاں بےشمار انوار الحق کاکڑ جیسے بھیڑیئے موجود ہیں، جو بلوچستان کے حقیقی مسائل کو چھپانے کی ناکام کوشش کرکے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب بلوچ قوم کے ہر طبقے کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ حقوق کی حصول تک سب یکجہتی کا مظاہرہ کر کے ایسے محب پاکسانیوں کا راستہ روکے جو بلوچستان کے لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ انوار الحق کاکڑ جیسے کرپٹ نام نہاد نمائندگی کا دعویداروں کے حقیقی چہرے کو دنیا کے سامنے ظاہر کرکے نشان عبرت بنایا جائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں