چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے – نذر بلوچ قلندرانی

694

چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے

تحریر: نذر بلوچ قلندرانی

دی بلوچستان پوسٹ

جیسے ہی انتخابات قریب آتے ہیں تو ایک عجیب قسم کی مخلوق زمین پر نمودار ہو جاتی ہے، مثال کے طور پر نڈر، بے باک، ایماندار، مخلص، اعلیٰ تعلیم یافتہ، نہ جھکنے والا، نہ بکنے والا، آپ کا خادم، آپ کی امنگوں کا ترجمان وغیرہ وغیرہ اس دوران پرانے سے پرانا پاپی بھی خود کو شریف ثابت کرنے میں ہر طرح کی کوشش کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ اپنے اٹھنے بیٹھنے اور بولنے کا انداز بیان بھی تبدیل کرتا ہے۔

امید کہوں! لالچ کہوں یا پھر لیڈر شپ کی فقدان کہوں بدقسمتی سے سامنے والے کو بھی فلاں شخص لیڈر اور رہنما نظر آنے لگتا ہے پھر وہ بھی اسی کی چادر اوڑھ کر اپنے دوست و احباب کو انہی کی طرف متوجہ کرنے کے لئے ایڑیاں رگڑتا ہے۔

ہمارے یہاں بلوچی میں ایک مثال ہے کہ ‘ذاماد نوخہ تاء آدی گانوخہ’ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب کوئی نیا سیاست میدان میں آتا ہے اور دیکھنے میں بھی وہ نواب، سردار اور امیر لگتا ہوں پھر تو ان کے آس پاس کسی کو ملنے کا بھی موقع بمشکل سے ملتا ہوگا۔

جیسے کہ ماضی میں ہمارے یہاں ایک سردار صاحب آیا تھا جو اپنے ہاتھوں میں دستانہ پہن کر لوگوں سے ملا کرتا تھا، حیرت کی بات ہے لوگ پھر بھی اپنے مسائل لیکر ان کی پاس جاتے تھے، جیسے کہ اس بات کا تذکرہ پہلے کر چکا ہوں کہ انتخابات قریب آتے ہی ہر شخص نڈر، بے باک، ایماندار، مخلص، اعلیٰ تعلیم یافتہ، نہ جھکنے والا، نہ بکنے والا، آپ کا خادم، آپ کی امنگوں کا ترجمان نظر آتا ہے خواہ انتخابات ضمنی یا بلدیاتی ہو موصوف آپ کی ٹوٹی پھوٹی امید کو روشنی کی پروانہ چھڑا کر آپ کو ترقی کی ڈھیر سارے خواب دکھاتا ہے، مثلاً روزگار، تعلیم، علاج، سڑکیں، پانی اور دیگر وہ تمام ضروریات زندگی جو شاید 76 سالوں تک اقتدار پر براجمان کوئی حاکم فراہم نہیں کرسکا۔

ذرا سوچیں وہ ہمیں اور تمہیں یہ سارے سہولیات کیوں فراہم کرے گا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ غریب کی روٹی، جھونپڑی اور ان کے آنکھوں میں رہنے والے وہ تمام خواب جو صدیوں سے ان کے دل میں گر کر چکے ہیں دراصل ان ہی سے اُن کی سیاست چمکتی ہے اور جس دن ہمارے یہ سارے مسائل حل ہوگئے پھر ان کی سیاست دو کوڑی کی رہ جاتی ہے تو کیوں نہ اپنے صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم اپنے مسائل خود حل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ انتخابات کے دوران نمودار ہونے والی مخلوق چند ہی دنوں میں اس طرح غائب ہوجاتی ہے جیسے کہ وہ تھے ہی نہیں،، پھر وہی غربت، بےروزگاری، لوڈشیڈنگ، پانی کی قلت احتجاج وغیرہ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں