شئے حق جلیس منحرف نہیں ہوئے ۔ عبدالواجد بلوچ

642

شئے حق جلیس منحرف نہیں ہوئے

تحریر۔ عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

موت کا ایک دن معیّن ہے، بالکل اس امر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، لیکن کسی ناگہانی موت کو منفی رنگ دے کر ان پر ہرزہ سرائی کرنا کسی صورت عقل مندی نہیں ماسوائے حسد، بغض و کینہ کے۔

ہاں وہی دردناک موت سنگت شئے حق جلیس عرف چاکر بلوچ کی تھی جو گزشتہ دن ایک حادثے میں جانبحق ہوگئے .جی ہاں چاکر ایک بلوچ جہدکار تھا اور وہ بھی اک مخلص، نڈر جفاکش جہدکار تھا جنہیں بلوچ قومی غلامی کا احساس تھا وہ جب اپنے عمر کے شباب حصے تک پہنچے تھے اسی وقت انہوں نے بلوچستان کی آزادی کے لئے سنگلاخ پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا ڈالا، وہ چلتا گیا، جہد کرتا گیا رُکا نہیں۔ کئی محاذوں پر دشمن کے لئے قہر بن کر واپس پہاڑوں پر لوٹا… گو لوگ کچھ بھی کہیں، کچھ بھی الزام دیں کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ حسد کینہ اور تقسیم در تقسیمانہ رویوں کی وجہ سے ایسے الزامات لگ جاتے ہیں. لیکن کسی قدرتی حادثے کو جواز بنا کر پلک جھپکتے ہی منحرف سرمچار کہہ کر سوشل میڈیا میں پاکستان جیسے نفسیات سے لیس عناصر شاید بدگمانی پیدا کریں لیکن حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے۔

شئے حق جلیس نے اگر بیچ رستے جس سفر کا مسافر تھا اسے ترک کیا تو اس کا قطعاً معنی یہ نہیں وہ رد انقلابی اور ایک منحرف جہدکار تھے وہ اس فلسفے سے کبھی انحراف کر ہی نہیں سکتے تھے جس فلسفے کی آبیاری کے لئے ان کی تربیت ان کے پیشروؤں نے کی تھی، ہمارے سیاسی کلچر میں پائی جانے والی وہ منفی رویے ہی وہ اسباب تھیں جس سے شئے حق جیسے جفاکش جہدکار بلوچ قومی تحریک سے کنارہ کرگئے لیکن ضمیر کے سوداگر کبھی نہیں بنے، ہم نے بہ حیثیت سیاسی جہدکار اس امر کو سامنے رکھ کر کبھی بھی غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ مسلح تنظیموں سے نکلا ہر شخص بے غیرت اور رد انقلابی نہیں ہوسکتا، ہر شخص لازم نہیں کہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد سے کنارہ ہوکر ریاست کا ہم رقاب بنے، آج بلوچ قومی تحریک کے اس رواں فیز کو سامنے رکھ کر ہمیں ان وجوہات پر غور کرنا ہوگا ورنہ پاکستان جیسے شاطر ریاست ہمیں نیست و نابود کردے گا گو کہ پاکستان اتنا طاقت ور نہیں اگر طاقتور ہوتا تو پنجگور کے اندر صرف سات بلوچ جہدکار انہیں تگنی کا ناچ نہ نچواتے بلکہ پاکستان اگر آج شاطر ہے اور وہ بلاخوف بربریت کی مثال قائم کررہا ہے تو اس کا سب سے بڑا ذمہ دار ہمارے منفی رویے ہی ہیں.ان رویوں کا خاتمہ ضروری ہے جو لوگ معاشروں میں رائے عامہ بناتے ہیں جب وہی اپنے مزاج میں کڑوے ہوجائیں یا الزام تراشی یا تضحیک سمیت کردار کشی کی سوچ کو اپنے مخالفین کے خلاف ”سیاسی ہتھیار“ بنالیں تو پھر معاشرے کی اصلاح کہاں سے ہوگی؟

ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے میں یہ ببانگ دھل کہونگا کہ شئے حق بلوچ منحرف تھے نہ ہی وہ مسترد شدہ آجوئی پسند جہدکار بلکہ وہ وہی عام بلوچ تھے جو بلوچستان میں آج بھی سانسیں لے رہی ہے، ایک مضبوط سوچ سے لیس ہوکر جب ہتھیار اٹھا لیا جاتا ہے تو جس سیاسی سماج میں اس ہتھیار اٹھانے والے قوتوں کے بَین سوداگر، منافق و چاپلوس اور آمر سوچ کے لوگ اپنا اجارہ داری قائم کریں تو شئے حق جیسے مزاحمتی کرداروں کو کنارہ کرنے میں ہی عافیت نظر آتی ہے لیکن وہ اُس سوچ، نظریہ اور فکر سے کبھی بھی رو گردانی نہیں کرسکتے جس کی بنیاد پر ان کی تربیت ہوئی ہو.

آج بلوچ قومی سیاست برائے آزادی سے جڑے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز بشمول سیاسی کارکنان کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا سوچنا ہوگا کہ ساتھ چھوڑنے والا ہر شخص مخبر، منحرف سرمچار یا ڈیتھ اسکواڈ نہیں ہوتا بلکہ جاری سیاسی عمل میں موجود پیچیدگیوں کی وجہ سے، منفی رویوں اور غیرسیاسی اخلاقیات کے عوض بھی لوگ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔

ہمارے لئے ان اعمال کی تدارک لازمی ہے نہ کہ پاکستانی میڈیا کے طرز پر سوشل میڈیا میں گند اور منفی بیانیہ پھیلا کر لوگوں کی کردار کشی کی جائے.شئے حق بلوچ عرف چاکر کے لئے میں بس یہی کہونگا کہ وہ ایک بلوچ جہدکار تھا، جفاکش سرمچار تھا لیکن ہمارے سیاسی رویوں اور پسند نا پسندانہ سوچ نے انہیں ان کی زندگی کے اس سفر میں انہیں ایک عام بلوچ بنا کر ان سےزندگی کے سفر کا اختتام کروایا وہ بلوچ بن کر اس جہاں سے کوچ کرگئے نہ کہ ایک منحرف جہدکار.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں