سرادر اختر مینگل اور شہباز شریف کی ملاقات، مختلف امور پر تبادلہ خیال

463

بلوچستان نیشنل پارٹی سربراہ اور پاکستان اسمبلی سردار اختر مینگل ہفتے کے روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی رہائش گاہ گئے جہاں شہبازشریف نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔

دونوں رہنماؤں نے ماڈل ٹاؤن میں ملاقات کی جس میں مہنگائی، بے روزگاری، معاشی تباہی اور شدید عوامی مسائل پر بات چیت کی۔

ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے تحریک عدم اعتماد کی عوامی خواہش کی تکمیل سے متعلق گفتگو کی، مجموعی ملکی صورتحال اور اپوزیشن کی مستقبل کی حکمت عملی سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

اس کے علاوہ ملاقات میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف نے سردار اختر مینگل کو ن لیگ کے موقف سے آگاہ کیا اور کہا کہ موجودہ ملکی سیاسی و معاشی خراب صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ نئے عام انتخابات ہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے رہتے ہوئے عوام کی حالت زار تبدیل نہیں ہوسکتی، جو حکومت ساڑھے تین سال کچھ نہ کرسکی وہ ڈیڑھ سال میں بھی کچھ نہیں کر سکے گی۔

دونوں قائدین کا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر مکمل اتفاق ہوا۔

یاد رہے کہ سردار اختر مینگل کو شہبازشریف نے دعوت پر مدعو کیا تھا۔

بعدازاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے اختر مینگل کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اختر مینگل سے ملاقات ہوئی، ہم نے ملاقات میں ملکی اور سیاسی صورتحال پر گفتگو کی۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں معاشی اور سیاسی صورتحال تشویشناک ہے، ہم نے آج کی ملاقات میں عدم اعتماد کی تحریک پر بات کی، عدم اعتماد کی تحریک کا اصولی فیصلہ کرچکے ہیں۔

شہبازشریف نے کہا کہ تیاری کررہے ہیں وقت آنے پر عدم اعتماد کی تحریک پیش کردیں گے، چھوٹے صوبوں کے حقوق کی پاسداری کرنی ہوگی، حکومت میں نہیں کہ آج ہی تاریخ بتادوں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے کہا کہ پاکستان سمیت ہر ملک کو اپنے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات رکھنے چاہیے۔

دوسری جانب اختر مینگل نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پی ڈی ایم کا حصہ ہیں اور ہمیشہ پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کو فوری حل کرنا ہو گا،تبدیلی کے نام سے چڑ ہو گئی ہے، بلوچستان کا مسئلہ ہمیشہ سے سیاسی تھا ، طاقت کے زور پر بلوچستان کے مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا۔