حکمران بلوچستان کی مسئلہ کا سیاسی حل نکالیں -بی ایس او

268

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی رہنماؤں نے لسبیلہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی اس پریس کانفرنس کا مقصد دو روزہ سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے میڈیا اور عوام کو آگاہی فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تنظیم کا تیسرا مرکزی کمیٹی اجلاس 20 اور 21 فروری کو حب چوکی میں بی ایس او کے مرکزی چئیرمین جہانگیر منظوربلوچ کے زیرصدارت میں منعقد ہوا۔

اجلاس کی کاروائی مرکزی سینئر جوائینٹ سیکریٹری غلام دستگیربلوچ نے چلائی۔
اجلاس میں حالیہ دنوں میں بلوچستان میں بڑھتی ہوئی غیریقینی صورتحال اور پرتشد واقعات پر تشویش کا اظہار کیا-

انکا کہنا تھا کہ اجلاس میں چیئرمین کا خطاب، دورہ رپورٹ، بلوچستان کے سیاسی و تعلیمی مسائل، تنظیمی امور اور آئندہ کے لائحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے-اجلاس میں چیئرمین نے تنظیم کے مرکزی سیکریٹری جنرل عظیم بلوچ کے بھائی اور دیگر اراکین کے رشتہ داروں سمیت بلوچستان میں جبری گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کیا، جبکہ پنجاب و بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی، لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں تنظیم کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری بالاچ قادر و دیگر انسانی حقوق کارکنان و سیاسی رہنماؤں پر بے جا ایف آئی آر ،جامعہ بلوچستان کے دو لاپتہ طالبعلموں کی عدم بازیابی ،جبکہ پنجگور میں قائد اعظم یونیورسٹی کے طالبعلم احتشام بلوچ کی ماورائے عدالت قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرکے اسے انتہائی افسوسناک قرار دے دیا-

اجلاس میں چیئرمین نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ رواں سال بلوچستان میں پرتشدد واقعات کا رونما ہونا اور جبری گمشدگیوں میں تیزی آنے کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جس نے بلوچ عوام میں غیریقینی صورتحال پیدا کرکے جمہوری جدوجہد کے راستے پر گامزن قوتوں کو پیچھے دھکیلنے کا خدشہ ہے-

انہوں نے کہا کہ رواں ماہ تربت میں بی ایس او کے مرکزی سیکریٹری جنرل عظیم بلوچ جبکہ تنظیم کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری بالاچ قادر و دیگرانسانی حقوق کارکنان پر لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ریلی نکالنے پر ایف آئی آر کرکے انھیں اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔ یہ عمل بی ایس او کی جمہوری سوچ اور علمی سرگرمیوں پر عدم برداشت کا اظہار ہے۔

سینٹرل کمیٹی اجلاس میں حالیہ دنوں قائدعظم یونیورسٹی میں زیرتعلیم ایم فل کے اسکالرحفیظ بلوچ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ کیے گئے سینکڑوں طلباء و سیاسی و سماجی کارکنان کی جبری گمشدگی پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا گیا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین سالوں سے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے درد و ازیتوں سے دوچار ہیں بجائے انکے پیاروں کی بازیابی کے بلوچستان میں ایک بار پر نوجوانوں اور سیاسی کارکنان کی گمشدگی میں شدت لائی جارہی ہے۔ بی ایس او سمیت بلوچستان کی دیگر جمہوری قوتوں کا ہمیشہ یہ مطالبہ رہا ہے کہ حکمران بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل نکالیں، لیکن حکمران بلوچ مسئلہ کو ڈنڈے کی زور پر حل کرنا چاہتے ہیں، جس سے لوگوں کا آئین سے بھروسہ مزید اٹھ جائے گا اور معاملات روز بروز بگڑتے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں آئندہ تین مہینوں کیلئے تعلیمی و ادبی اور سیاسی پروگرام منعقد کرنے کے فیصلے کئے گئے، جبکہ بلوچستان کی موجودہ تعلیمی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے تعلیم کے میدان میں حکومتی اقدامات کو ناکس قرار دےدیا گیا۔ اجلاس میں اراکین نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ مکران، جھالاوان اور لوارائی میڈیکل کالجز کا پی ایم سی میں رجسٹر نہ ہونا حکومت بلوچستان کی نااہلی ہے۔میڈکل کالجوں کے طلباء گزشتہ کئی مہینوں سے پریس کلب کے سامنے احتجاج پر بیٹھے ہیں اور انھوں گزشتہ دنوں تادم مرگ بھوک ہڑتال بھی کیا لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہا-

بی ایس او کے چیئرمین نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیمی نظام بدترین دور سے گزر رہا ہے، صوبے کے جامعات اور ذیلی کیمپسز مالی دیوالیہ پن کے شکار ہوچکے ہیں، جبکہ کالجز اور اسکولون میں اساتذہ کی کمی و دیگر سہولیات کا بے تحاشہ فقدان ہے جس سے بلوچستان کا نظام تعلیم بے حد متاثر ہے۔

تنظیم کے مرکزی ذمہ داران کے بھائیوں کی جبری گمشدگی اور مرکزی سیکریٹری اطلاعات پر غیرآئینی ایف آر بلوچستان میں جاری اجتماعی زیادتیوں کا تسلسل ہے، جس کا مقصد بی ایس او کی سیاسی و علمی سرگرمیوں کو کمزور اور جمہوری جدوجہد کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کا منصوبہ ہے جسے کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا-


بی ایس او کا سیاسی موقف واضح ہے، ہم پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہوئے آئینی فریم ورک میں تعلیمی و قومی مسائل پر جدوجہد کررہے ہیں۔ ہمارا مقصد بلوچستان کے تعلیمی بہتری کیلئے جدوجہد اور بلوچ طلباء کو یکجاہ کرکے انکی سیاسی، علمی اور شعوری تربیت کریں۔ تنظیم واضح کرنا چاہتی ہے کہ اس طرح کے اجتماعی زیادتی اور خودساختہ خوف سے ہمارے اراکین کو سیاسی جدوجہد کے راستے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ بی ایس او آئندہ بھی بلوچ نوجوانوں کی شعوری تربیت کے ساتھ تعلیمی و سیاسی حقوق کیلئے جدوجہد کرتی رہیگی-

انہوں نے مزید کہا کہ سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں تنظیمی پروگرام کو مذید تیز کرنے،موجودہ سیاسی و تعلیمی مسائل پر تحریک چلانے اور ادبی ، سیاسی اور ثقافتی سرگرمیوں کو مذید تقویت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔