لسبیلہ یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل – گوهر بلوچ

658

لسبیلہ یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل

تحریر: گوهر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج کل ایک نئی سوچ پائی جاتی ہے جو نوآبادکار کی جانب سے ہمارے لوگوں کے زہنوں میں انجیکٹ کی گئی ہے کہ عورت صرف گھر تک محدود ہوتا ہے مطلب گھر کا یا خاندان کے غیرت کا ٹھیکہ دار عورت ہے حالانکہ ایک نظر بلوچ تاریخ پر دہرایا جائے تو بلوچ خواتین ہر دور میں آپ کو صف اول میں ملیں گی، جہاں بلوچ عورتوں نے وه کردار ادا کی ہے، جس پر ہر بلوچ فخر کرتا ہے جیسا کہ بلوچ مہمان نوازی اور غیرت مندی کا مثال دیتا ہے انہی چیزوں میں بلوچ عورتوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور کر رہی ہیں اگر غیرت مندی کی بات آجائے تو میری ذہن میں ہمیشہ مھناز آتی ہے جبکہ مزاحمتی کردار کی بات کی جائے تو بانڑی، سمی اور لُمہِ وتن بانک کریمہ کے نام ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔

بلوچستان کے مختلف شہروں سے بلوچ طلباء و طالبات پاکستان کے مختلف شہروں میں علم حاصل کرنے کیلئے جاتے ہیں گوادر کے مختلف علاقوں سے گنز، پیشکان جیونی ضلع کیچ کے دور دراز علاقوں سے زامران بلیده اور قلات، پنجگور آواران خاران سمیت عموماً بلوچستان کے علاقے سے طلباء و طالبات پڑهنے کیلئے پاکستان کے مختلف شہروں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں جاکر مختلف مسائل جھیلتے ہیں تعلیم حاصل کرنا ہرکسی کا بنیادی حق ہے اس میں یہ نہیں ہے کہ بیٹے یونیورسٹی میں یا اسکول میں اور بیٹی صرف گھر کا برتن دهولیں اسکی اجازت نا اسلام میں موجود ہے اور نا ہی بلوچ سماج میں۔

میں جو بات کرنے جارہی ہوں وہ ہے اوتھل یونیورسٹی، جو بلوچستان کے تاریخی ڈویژن لسبیلہ کے شہر اوتھل میں 2005 کو تعمیر کیا گیا ہے اس میں کافی شعبے ہیں، جہاں عموماً زیاده تر بلوچ طلباء و طالبات پڑهائی کر رہے ہیں جو بلوچ سماج کیلئے ایک اچھا شگون ہے بات کرتے ہیں لسبیلہ یونیورسٹی کے گرلز هاسٹل کے جہاں مجھ سمیت بلوچ اور دیگر اقوام کی بیٹیاں انتہائی خراب حالات میں رہائش پزیر ہیں کیونکہ وہاں کا سب سے بڑا مسلئہ میس کا ہے، جہاں پیسہ فائیو اسٹار هوٹل کے وصول کرتے ہیں مگر کھانا دال کم پانی زیاده اور دوسری بات اسٹوڈنٹس کو خود بنانے کی اجازت بھی نہیں ہے اور میس کے کھانے کھانے کے قابل ہی نہیں ہیں اگر کوئی مجبوری سے کھا بھی لے تو پیسہ اتنا دیں کہ جتنا وه کسی دائیو اسٹار هوٹل میں بریانی کا دیتا ہے اور ایک بات یہاں شام کے چھ بجے کے بعد ھاسٹل بند ہے میں اس کا خلاف تو نہیں ہوں کہ ہاسٹل چھ بجے بند نہ کیا جائے بلکہ میں اس چیز کا خلاف ہوں کہ چھ بجے جب ہاسٹل بند ہوتی ہے تو ایک تو هاسٹل میں کچھ نہیں ہے اور باہر سے کوئی چیز منگوا نہیں سکتے کسی کا بھائی یا کوئی رشتہ دار کوئی بھی چیز چھ بجے کے بعد دے نہیں سکتا اگر کوئی بیمار ہو تو نہ هاسٹل میں جوس میسر ہے نہ کوئی اور چیز۔

ایک اور بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے جیسا کہ گوادر اور تربت کے طلباء و طالبات کراچی کے بسوں سے آتے ہیں اور کراچی کے بسیں اوتھل زیرو پوائنٹ پر اُتارتی ہیں اور یونیورسٹی زیرو پوائنٹ سے تقریباً 17 کلو میٹر دور ہے بلوچ بیٹیاں ایک طویل سفر طے کرکے لسبیلہ یونیورسٹی بمشکل آتے ہیں اور یہاں آکر اس سے بھی زیاده مسائل انہیں جھیلنی پڑتی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں