تاریخی شاہکار ۔ محمد عمران لہڑی

460

تاریخی شاہکار

تحریر: محمد عمران لہڑی

دی بلوچستان پوسٹ

60 سال کے بعد اگر کسی قوم کو ان کے اسلاف ان کی اپنے لکھی عظیم قومی خدمات، قربانیوں پر مشتمل تاریخی دستاویز مل جائے تو میں کہتا ہوں اس قوم کی وجود کو نئی زندگی مل جاتی ہے۔ بلوچستان تاریخی اعتبار سے ہمیشہ بیرونی طاقتوں کے زد میں رہا ہے۔ کبھی منگول حملہ آور ہوئے تو کبھی فارس۔ کبھی پرتگیزی اس وطن کو اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی تو کبھی برطانوی سامراج نے۔ برطانیہ کافی زور آزمائی کی اور بے سروسامان بلوچوں سے جنگ بھی لڑی۔ لیکن بلوچ قوم کے خون میں یہ شامل ہے کہ اپنے سرزمین کا دفاع اپنے خون سے کرنا ہے۔ وہ تاریخی دن جب برطانوی قبضہ گیر بلوچستان پر یلغار کیا تو بلوچستان کے خان اعظم میر محراب خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ وقت کی بڑی طاقت کے سامنے ڈٹے رہے اور اپنے خون کے آخری قطرے تک وطن کا دفاع کرتے ہوئے 13 نومبر 1939 کو جام شہادت نوش کیا۔

بلوچستان کی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری بڑی ہے۔ حمل و جیئند اور بالاچ گورگیج کی تاریخ آج بھی بلوچوں کے بچے بچے کو یاد ہے۔ یہاں مائیں اپنے بچوں کو رات کے وقت سلانے کے لیے ان بہادروں کے قصے سناتی ہیں۔ اس وجہ سے اس قوم کی بچوں میں پیدائشی قوم پرستی اور وطن دوستی کا عنصر موجود ہے۔

انگریز فرنگی کے خلاف بلوچ زعماء نے جنگی میدان میں بھی دشمن کا سینہ تان کر مقابلہ کیا اور سیاسی میدان میں بھی۔ غازی نورا مینگل کی تاریخی جدوجہد سے لیکر سفر خان تک اور آج کے دور تک کے جدوجہد ایک زندہ تاریخی درخشندہ ہے۔ سیاسی میدان میں میر یوسف عزیز مگسی، میر عبدالعزیز کرد، بابو عبدالکریم شورش، میر عبدالواحد کرد، محمد حسین عنقا، نسیم تلوی جیسے سیاسی لیڈران ہر محاذ پر سیاسی جلسہ جلوس، تقریریں، صحافت، میڈیا اور مختلف اخبار، میگزین، پمفلٹ کے شکل میں دشمن کی نیندیں حرام کردیا تھا۔

لیکن ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم اپنے ان عظیم ہستیوں کے کارناموں کو محفوظ نہیں رکھ سکیں۔ کچھ اگر بچے کچھے موجود ہیں تو وہ بھی کسی الماری کے زینت بنے چھاپ نہیں ہوئے ہیں۔

ان المیوں کو ختم کرنے کیلئے قومی ہستیوں کے کارناموں کو محفوظ کرنے، چھاپنے اور عوام تک پہنچانے کی سوچ کو اپنا کر ہم چند دوستوں نے “مست توکلی انسٹی ٹیوٹ” کا قیام عمل میں لایا۔

بلوچستان کے سیاسی لیڈران کے سوچ و افکار کو نسل نو تک پہنچانا، سیاسی، ادبی اور سماجی شعور کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف قسم کے پروگرامز منعقد کرنا، تاریخی اتینٹک کتابوں کو پبلش کرنا جیسے مقاصد کو لیے جدوجہد شروع کیے۔

مست توکلی انسٹی ٹیوٹ کی یہ باقاعدہ پہلی کتابی سلسلہ ہے جو پبلش ہوکر عوام تک پہنچ گئی۔ یہ کتاب بلوچستان کے نامور سیاستدان اور صحافی محمد حسین عنقا کی خودنوشت کتاب ہے جس کا عنوان ہے “بلوچستان کی کہانی،میری زبانی.” یہ ایک اہم تاریخی مسودہ ہے۔ اس میں محمد حسین عنقا نے اپنے سیاسی کارناموں، دوستوں کے جدوجہد اور انگریز سرکار کے سیاسی میدان میں کس طرح بے سروسامان مقابلہ کیا۔ مالی مشکلات اور تنگ دستی کے عالم میں اپنے موقف پر ڈٹ جانا انہیں ہستیوں کا شیوہ تھا۔ آج کے نوجوانوں کو لازمی معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے اسلاف نے پیٹ پر پتھر باندھ کر اس وطن اور قوم کا دفاع کیا۔ ہماری روشن مستقبل کا راستہ انہی لیڈران کے اقوال اور اعمال، جدوجہد اور شعور و فکر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

اس کتاب کی پبلشنگ میں مست توکلی انسٹی ٹیوٹ کے زمہ داروں کو کافی مشکلات درپیش آئیں۔ چونکہ کتابی مسودہ ہاتھ کے لکھائی کے ساتھ کافی پرانا تھا۔ بقول بابو ستار سیلانی کے کہ یہ کتاب 60 سال کے بعد شائع ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے کئی دانشور اور پبلشر حضرات لے گئے لیکن پبلش نہیں کروا سکے۔ ٹائپنگ اور پروف ریڈنگ سے لیکر پیج ٹائیٹل اور کتابی شکل دینے تک کافی محنت اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کافی کوشش رہی کہ ٹائپنگ کا غلطی باقی نہ رہے لیکن پھر بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ تو قارئین ٹائپنگ اور پروف غلطیوں کا اصلاح کریں اور کتابی سلسلے کو جاری رکھنے کیلئے مست توکلی انسٹی ٹیوٹ کے دوستوں کے ساتھ مددگار رہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں