سال کا آخری ڈھلتا سورج بلوچ بیٹیوں کے نام ۔ محمد خان داؤد

365

سال کا آخری ڈھلتا سورج بلوچ بیٹیوں کے نام

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

آؤن نہ گڈیس پرین ء کھے،تون تھو لھین سج!
’’میں تو محبوب سے نہیں مل پائی سورج تو ڈوب رہا ہے؟!‘‘
یہ آج کے ڈوبتے سورج سے بلوچ بیٹیوں کو سب سے بڑی شکایت ہے
ابھرتے سورج تو ڈوب ہی جاتے ہیں اور یہ سورج بھی ڈوب ہی گیا!
پرانے سال کا پرانا سورج بلند و بالا پہاڑوں کی اُوٹ میں ڈوب ہی گیا اور نئے سال کا نیا سورج اپنی معصوم آنکھیں میچتے سمندر کے سینے سے نمودار ہو جائیگا۔سورج تو کروڑوں سالوں سے وہی ہے۔پر وہ جو دن کا رات ہونا اور رات کا دن۔سب کچھ پھر جانا۔اور سب کچھ وہی رہنا۔تاریخوں کا پھر جانا اور وہی ہندسوں کا رُک جانا۔پر پھر بھی چند گھنٹوں میں یہ سورج ڈوب جائیگا۔اور یہی سورج کل طلوع ہو جائیگا۔پھر نیا کیا ہے؟پرانا کیا ہے؟پرانا کیا ہے ؟نیا کیا ہے؟
اس نئے پرانے کے کھیل میں دل اور درد تو وہیں رہتے ہیں
اس نئے پرانے میں گیلے گال تو وہی رہتے ہیں
اس نئے پرانے میں گھر کا ادھ کھلا در تو ہی رہتا ہے
اس نئے پرانے میں مائیں تو ہیں رہتی ہیں
اس نئے پرانے میں وہ سکھیاں تو ہی رہتی ہیں
جن کے پیا گئے پردیس(گم نام!)
اس نئے پرانے میں رت جُگے تو ہیں رہتے ہیں
اس نئے پرانے میں سفر۔بے گور منزلیں۔مسافتیں تو وہی رہتی ہیں
اس نئے پرانے میں دروں کی آہٹ اور اس آہٹ پر ماں کا تڑپ جانا تو وہی رہتا ہے
اس نئے پرانے میں حالِ دل تو وہی رہتا ہے
پر اس نئے پرانے میں حالِ دل نہیں بدلتا
اس نئے پرانے میں مقتلوں جیسے دلوں کا کیا بدلتا ہے؟
وہی سب کچھ۔وہی کچھ بھی نہیں!پھر بھی سال بدل جاتا ہے
اور لطیف کی یہ لائینیں ماتم کرتی پہاڑوں میں دب جا تی ہیں کہ
،،آؤن نہ گڈیس پرینء کھے،تون تھو لھین سج!،،
بلوچستان سے لیکر پو ری دنیا میں اس نئے سورج کا شاندار استقبال کیا جائے گا منچلے ساحلوں پر جا کر اس نئے آتے سورج کے ساتھ سیلفیاں بنائینگے اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیں گے اور ابھی جا تے سورج کو بھی وہ اپنے موبائل فون میں قید کر لینگے۔جاتا سورج سب کچھ دیکھ کر جا رہا ہے۔اور آتا سورج وہ سب کچھ آکر دیکھے گا جو ابھی نہیں ہوا۔پر ہونے نہ ہونے کے بیچ میں کیا ہے؟!
وہ سورج جو پرانے سال کا آخری سورج ہے جو آج صبح سمندر کے نیلے پانیوں کو اپنے رنگ میں رنگتے ساحل پر نمودار ہوا وہ سورج کچھ گھنٹوں میں کبھی نہ آنے کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈوب جائے گا۔
پھر وہ کل سمندر کی سطح پر طلوع ہوگا جو ویسے تو کروڑوں سالوں سے طلوع ہو رہا ہے۔پر ابنِ آدم سمجھتا ہے کہ وہ نیا سورج ہے۔وہ نراس کا نہیں وہ آس کا سورج ہے۔وہ ڈوبتا نہیں طلوع ہوتا سورج ہے۔وہ اندھا نہیں وہ روشن سورج ہے۔وہ بوڑھا نہیں ،وہ اس بچے کی ماند ہے جو ماں کی کھوک سے پہلی بار جنم لیتا ہے اور کچھ دیر بعد اپنی آنکھیں کھول کر اپنی ماں کو دیکھتا ہے۔مسکراتا ہے۔ماں اسے اُٹھا کر چوم لیتی ہے۔پر اس آس کے نئے سورج کو کو ن چومیں؟!!
یہ سورج بھی کچھ گھنٹوں میں اپنی آنکھیں کھولے اس دوزخ جیسی دنیا کو دیکھ پائے گا۔یہ ڈھلتا سورج نہیں ۔یہ طلو ع ہوتا سورج ہے۔یہ عیار سورج نہیں ۔یہ معصوم سورج ہے۔تھکا ہوا سورج آج ڈوب جائے گا۔اور توانا سورج کل صبح طلوع ہو گا۔آج ڈوبتے سورج کے ساتھ اس سورج کی تمام شامیں۔تمام راتیں۔تمام صبحیں۔اور تمام آج کل ڈوب جائیگا۔پر اس جا تے سورج کے ساتھ اگر نہیں ڈوبے گا تو وہ درد ہوگا۔وہ سفر ہوگا۔وہ بغیر منزلوں کی مسافتیں ہو گیں۔وہ درد ہوگا جو گم شدہ لوگوں کے ورثا اپنے کاندھوں پر لیے پرانے سورج کے ساتھ بھی سفر میں تھے اور اب کل اس نئے سورج کے ساتھ بھی سفر میں ہو نگے!اور سفر جس کی کوئی منزل نہیں۔اور کوئی نہیں کہتا کہ
،،کتھے تہ بھیجو تھک مسافر!،،
،،کہیں تو راہ میں منزل ہوگی!،،
پر سورج ڈوب رہا ہے!
اور ان ماؤں کے دھڑکتے دل بھی ڈوب رہے ہیں
اور آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور سانسیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو بن منزلوں کے مسافر ہیں۔وہ جو سسی جیسی ہیں۔وہ جن کا پنھوں کھو گیا ہے۔وہ اس ڈوبتے سورج کو منتیں کر رہی ہیں کہ
،،آؤن نہ گڈیس پرینء کھے،تون تھو لھین سج!،،
،،میں اپنے محبوب سے تو مل نہیں پائی اور سورج تم ڈوب رہے ہو!،،
پر سورج ڈوب جائیگا!اور کل کہیں ہلکی اور کہیں تیز سردی کی لہر میں نیا سورج طلوع ہوجائیگا اور وہ سب سے پہلے ان پھولوں سے شبنم خشک کریگا جو پھول اس کو نمسکار کرنے کو بے تاب ہو نگے۔وہ سورج ان پھولوں سے شبنم خشک کریگا پھول جب شبنم کی گیلی محبت سے آزاد ہو نگے تو اس سورج کو ،،وش اتکے،،کرینگے اور سورج ان محبت بھرے پھولوں کو دیکھ کر مسکرائیگا!
اور بہت دور ڈبتے دل اس نئی آس پر بہت نراس ہورہے ہونگے!
کاش کوئی ایسا سورج بھی ہو جو ان گیلے گالوں کو بھی خشک کرے جو اپنے آنسوؤں سے تر گیلے گالوں سے وہاں گھومتے نظر آتے ہیں جہاں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔جن کے گال سدا کے گیلے رہتے ہیں۔جن کے گیلے گالوں کی وجہ سے ان کے آنکھیں اندھی ہو رہی ہیں کیوں اس لیے کہ وہ بہت رو تی ہیں اور آنکھوں کا سورا پانی گالوں کو تر کر جاتا ہے۔کاش کوئی ایسا بھی سورج طلوع ہو!
پر اس نئے پرانے سورج میں اتنی تمازت ہی نہیں کہ وہ گیلے گالوں کو خشک کر پائے
یہ سورج تو بس اپنی محبت پھولوں پر نچھاور کرتے ہیں پھولوں سے شبنم کو دھو ڈالتے ہیں۔پھول خشک ہو کر ہوا میں لہرا تے نظر آتے ہیں اور گیلے گال مذید گیلے ہو تے رہتے ہیں۔
پر اس جا تے سورج کے ساتھ ایک وہ بلوچستان ہے جو پو ری رات مہ پی کر مد ہوش رہیگا اور آکاش کو نئے رنگوں سے بھرتا رہے گا
اور ایک وہ بلوچستان ہے جسے معلوم ہی نہیں کہ کب پرانا سورج ڈوب گیا اور نیا سورج طلو ع ہوا؟
ایک وہ بلوچستان ہے جسے اس بات کا انتظار رہا کہ کب رات کے بارہ بجتے ہیں اور کب وہ اپنے گرم لحافوں سے با ہر آکر سب کو یہ بتائیں کہ نیا سورج اپنے منطقی انجام کو پونچھا
اور ایک وہ بلوچستان ہے جس کا دل درددوں کا ماراہے جو بہت روتا ہے جسے سالوں کا کیا پر جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ آج کون سا دن ہے؟!
ایک وہ بلوچستان ہے جو شہروں میں بستا ہے جو سال کے آخری جا تے سورج کو الوداع کرتا ہے اور رات کو مہ پی کر بہت مزا کر تا ہے
اور ایک وہ بلوچستان ہے جو بہت دور پہاڑوں کے دامنوں میں بستا ہے جس کی بیٹیاں اپنا سا درد لیے شہروں میں دربدر رہتی ہیں جن کے لیے پرانا سال بھی وہی ہے اور نیا سال بھی وہی ہے
ایک وہ بلوچستان ہے جو سرد جگوں پر بہت گرم رہتا ہے نئے سورج کو نمسکار کرتا ہے اور پرانے سورج کو وداع!
پر ایک وہ بلوچستان ہے جو بہت سرد جگوں میں بستا ہے جس کے پاس بس گرم آنسو ہو تے ہیں وہ بھی سردی سے گالوں پر جم جا تے ہیں
پر ایسا کوئی سورج نہیں جس کی تپش سے وہ ان گالوں کو خشک کر دے جو اک عرصہ سے گیلے ہیں بہت گیلے ہیں!
اس جا تے سورج اور آتے سورج میں ایک وہ بلوچستان ہے جسے کچھ خبر نہیں کہ وہ بیٹیاں جو اس سخت سردی میں کبھی سڑکوں پر کبھی اسمبیلی کے دروازوں پر کبھی پریس کلب کے دروں پر کبھی ان شاہراوں پر نظر آتی ہیں جن کے ہاتھوں میں پھٹے پرچم۔بینر۔پوسٹر۔جن کے پیر زخمی اور چھیرے اداس اور ویران ہیں جو ایک عرصے سے اپنے گھر چھوڑ کر انہیں تلاش رہی ہیں جو کہاں ہیں سب جانتے ہیں ۔پر کوئی نہیں جانتا۔وہ بلوچستان جو بہت خوش ہے جو شہروں میں بستا ہے آئیے اس بلوچستان کو اس جا تے سورج اور آتے سورج میں بتائیں کہ وہ بہنیں جن کی زندگی میں کسی نئے سورج اور پرانے سورج کی کوئی معنیٰ نہیں آئیے اس بلوچستان کو بتائیں کہ وہ کون ہیں جو در بدر ہیں جو ۔نراس ہیں۔ جو بہت اداس ہیں آئیے انہیں بتائیں کہ وہ کون ہیں؟
،،وہ کالیداس سے پہلے کا کوئی زمانہ ہیں
وہ اُمارو کے جیسے سونھن کا کوئی سنسار ہیں
وہ لطیف سے رہ جانے والا سُر ہیں
وہ غم کی موسیقی ہیں
جسے کوئی موسیقار بھی دھن میں نہیں ڈھال سکا
وہ آہ ہیں وہ پکار ہیں
آموں میں جھولا جھول رہا ہے،وہ ساون کا پیار ہیں
وہ طویل انتظار ہیں۔وہ آس میں بھی نراس ہیں۔وہ نراس میں بھی آس ہیں
تم پو چھتے ہو وہ کون ہیں؟
وہ صدیوں کا سلسلہ ہیں
وہ گھاٹ ہیں ،وہ گھیر ہیں
وہ آبشار ہیں
وہ گھر میں جلتا دئیا نہیں
وہ جلتا دل ہیں
وہ پرانی آواز میں نیا گیت ہیں
گیت وہ جن پر برستات برسے
یہ وہ شبنم ہیں جس پر بھونرے آئیں
جن میں ستارے موتیوں کے جیسے لگیں
گیت وہ جو اُوس ہیں
گیت ایسی خاک ہیں
جو صدیوں کو لتاڑتے ہیں
وہ میراں ہیں،وہ جو آکاس میں اُڑتی ہے
وہ نانک کہ جیسے سنگیت ہیں
وہ زندگی کی جیت ہیں
وہ بھٹائی کا تنبورو بن کر پھر سے بجتی ہیں
وہ کل کا گیت ہے
وہ آج کا نوحہ ہیں!،،


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں