جنگلات و جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے ’اشر‘

518
طلبہ نے 900 پودے لگانے کا ریکارڈ بھی قائم کیا—ایمل خان مندوخیل

جنگلات کی کٹائی ایک خلافِ فطرت عمل ہے اور عصرِ حاضر میں جب پوری دنیا کو بدترین فضائی آلودگی اور موسمی حدت کا مسئلہ درپیش ہے ایسے میں درختوں کی کٹائی گویا پوری انسانیت کو تباہی کی طرف لے جانے کے مترادف ہے۔

ہماری زمین بہت تیزی کے ساتھ جنگلات سے محروم ہورہی ہے۔ محققین کے مطابق جنگلات کی کٹائی ایک غیر معمولی انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔

بلوچستان میں وادی ژوب اور شیرانی کے شین غر، کوہِ سلیمان، سانگے غر، قمردین کاریز و دیگر علاقوں میں انواع و اقسام کے درخت پائے جاتے ہیں۔ بالخصوص کوہِ سلیمان کے دامن میں واقع شین غر، تور غر، اوبشتہ، پونگہ منڑہ جیسے علاقے چلغوزے کے قیمتی جنگلات سے مالا مال ہیں۔

اسی طرح ان علاقوں میں زیتون اور دیگر اقسام کے پیڑوں کی بھی بہتات نظر آتی ہے۔ تاہم گزشتہ 10، 15 سال کے دوران ہزاروں کی تعداد میں درخت کاٹ کر مقامی افراد اور ٹمبر مافیا نے ان خوبصورت جنگلات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جنگلات کے متعلقہ ادارے اگرچہ اس بربادی کی دہائیاں تو دیتے ہیں لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتے نظر نہیں آتے۔

لیکن بھلا ہو ان نوجوانوں کا جنہوں نے رواں سال اپریل سے نہ صرف جنگلات کی کٹائی کے خلاف بھرپور مہم کا آغاز کیا بلکہ ژوب ڈویژن کے مختلف اضلاع ژوب، شیرانی، قلعہ سیف اللہ اور لورالائی میں اپنی مدد آپ کے تحت تقریباً 60 ہزار درخت لگا کر ماحول دوستی کا ثبوت دیا۔

سالمین خپلواک کی سربراہی میں شروع ہونے والی یہ مہم اشر کہلائی جس میں یہاں کے درجنوں نوجوانوں نے حصہ لیا۔ ہم آپ کو یہاں بتاتے چلیں کہ ‘اشر’ اس اجتماعی کُمک کا نام ہے جو پشتون اور بلوچ معاشرے میں لوگوں کی رضاکارانہ طور پر مدد کرتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اشر میں لوگ صرف فرد واحد کا ہاتھ بٹائیں بلکہ اس کے ذریعے سماج کے مشترکہ کاموں اور مسائل کو بھی حل کیا جاسکتا ہے۔

اشر  بلوچوں اور پشتونوں کی ضابطہ حیات کا ایک اہم عنصر ہے جس کے ذریعے ایک طرف جہاں ہفتوں کا کام چند دنوں میں نمٹایا جاتا ہے وہیں دوسری طرف یہ اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کا ایک بہترین وسیلہ بھی بنتا ہے۔

اشر میں شریک نوجوان—ایمل خان مندوخیل

سالمین خپلواک ژوب میں مقیم ایک استاد اور سماجی کارکن ہیں، انہوں نے جنگلات کی کٹائی کے خلاف علم بلند کرکے اپنے علاقے کے لوگوں کے دل جیت لیے ہیں۔ سالمین کے مطابق چونکہ درخت لگانے کی مہم میں انہیں ایک مضبوط ٹیم مطلوب تھی لہٰذا انہوں نے مقامی نوجوانوں کو اس مہم کا حصہ بننے کے لیے راغب کیا۔

سالمین کہتے ہیں کہ نوجوانوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ان کے دو لطیف ساتھیوں نے بھی بھرپور انداز میں ان کا ساتھ دیا۔ وہ مقامی افراد کا حوصلہ بڑھانے کے دوران اپنے لطیفوں سے محظوظ بھی کرتے رہے۔

مقامی افراد کی یہ کاوشیں رنگ لے آئیں اور چند ہی دنوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شجرکاری کے اشر کے لیے جمع ہوگئی۔ سالمین کے مطابق اشر کی سخت جاں ٹیم نے نہ صرف ژوب ڈویژن کے اضلاع ژوب، قلعہ سیف اللہ اور لورالائی کے مختلف تعلیمی اداروں میں 60 ہزار سے زائد درخت لگائے ہیں بلکہ طلبہ کو اپنی جدوجہد کا حصہ بنا کر لورالائی میں ایک منٹ میں 900 درخت لگانے کا ریکارڈ بھی قائم کیا۔

طلبہ نے 900 پودے لگانے کا ریکارڈ بھی قائم کیا—ایمل خان مندوخیل

اشر کی ٹیم نے 20 نومبر کو ژوب کے سلیازہ نامی مقام پر ایک قبائلی جرگے کا بھی اہتمام کیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تقریباً 500 افراد نے شرکت کی۔ پشتون معاشرے کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا جرگہ تھا جس کا ایجنڈا ماحولیات جیسے عالمگیر مسئلے کو اجاگر کرنا اور اس حوالے سے عوامی شعور و آگہی کو پیدا کرنا تھا۔

پشتون معاشرے کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا جرگہ تھا جس کا ایجنڈا ماحولیات جیسے عالمگیر مسئلے کو اجاگر کرنا تھا—ایمل خان مندوخیل

اس جرگے میں بطور مہمان خصوصی شریک سیکریٹری ماحولیات دوستین جمالدینی کے علاوہ سابق بیوروکریٹ ڈاکٹر عمر بابر، سابق کمشنر رخشان ڈویژن ایاز خان مندوخیل، محکمہ نیاز کاکڑ، امین مینگل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ڈاکٹر بایزید روشان، جمیعت علمائے اسلام کے محمد خان کبزئی، عوامی نیشنل پارٹی کے امان اللہ حریفال، قطب خان آفاقی اور دیگر مہمانوں نے شرکت کی۔ حاضرین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عہد کیا کہ وہ جنگلات کی کٹائی اور جنگلی حیات کے شکار کے خلاف کسی بھی طرح کا تعاون فراہم کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔