شہید ملا گلاب، وطن کا سپوت – گلزار امام بلوچ

640

شہید ملا گلاب، وطن کا سپوت

تحریر: گلزار امام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہیدوں کے کردار کو تحریری زبان میں بیان کرنا بہت مشکل کام ہے. کیونکہ ان شہیدوں کا کردار اور عمل نہ الفاظ کا محتاج ہے اور نہ شہیدوں کو کسی تعارف کی ضرورت ہوتی ہے. ان کا ہر عمل اور کرداروطن کے دفاع، قومی آزادی اور اپنے عوام کے لئے ہوتا ہے.

دنیا میں ایسے کرداروں کی طویل فہرست ہے جو آزادی، قوم کی فلاح و بہبود کے لئے تختہ دار پر لٹکائے گئے، کہیں جنگی میدان میں دشمن سے مقابلے میں شہید ہوئے لیکن وطن کی مٹی سے عشق نبھانے والے ان فرزندوں کے قدموں میں کبھی کمزوری نہیں آئی. ایسے ہی کردار وطن کے سچے سپوت ہیں جن کی قربانی اور شہادت عوام اور اپنے ساتھیوں کو تحریک آزادی میں ایک نیا جوش و ولولہ عطا کرتی ہے.

بلوچستان شہدا کی سر زمین ہے، ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوانوں نے قربانی کے جذبے سے سرشار ہو کر قومی آزادی کو ایک نئی روح عطا کی. ان نوجوانوں میں ایک نوجوان شہید ملا گلاب ہے.

ملا گلاب جان بلوچ قومی آزادی کی خاطر طویل جدوجہد کے بعد دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے، ملا گلاب جسے میں جانتا ہوں،جو انتہائی شفیق،مہربان ہونے کے ساتھ ساتھ تنظیمی ڈسپلن پر ایمان رکھنے والے ایک عظیم سرمچار تھے۔ ملا گلاب غریب گھرانے میں پیدا ہوئے،بچپن انتہائی کسمپرسی کے ساتھ گزاری، جن کے والدین بمشکل انھیں میٹرک تک تعلیم دلا پائے.

شہید ملا گلاب کو جب ذمہ داریوں کا احساس ہوا، بلوچستان میں ظلم و جبر کا احساس ہوا تو دوسرے نوجوانوں کی طرح خود کو تحریک سے جوڑ دیا. کیونکہ ملا گلاب یہ جانتا تھا کہ طاقت کا جواب طاقت ہی سے دیا جاسکتا ہے.

جس دن ملا نے بلوچ گلزمین کے دفاع اور دشمن کے خلاف لڑنے کا حلف لیا،تو وہ اپنے سوگند اورحلف کی لاج رکھنے میں تاحیات ثابت قدم رہ کر دھرتی کی شان میں امر ہوئے۔

جس دن مجھے ملا گلاب جان کی شہادت کی خبر موصول ہوئی تو انتہائی خوش ہوا،خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا تو دوستوں نے پوچھا گلزار آج آپ انتہائی خوش دکھائی دئے رہے ہو؟ تو میں نے بغیر بولے سب کو مبارک باد دی کہ شہید ہمارے تنظیم کے پلیٹ فارم سے لڑ کر ثابت قدم رہے، میں اسی شعر کے ساتھ (من نازاں پہ وتئی ڈیھ ءَ پہ ڈیھءَ شئے مریدیں ماں)شہید گلاب جان کیلئے چندجملے دوستوں کے ساتھ بولتا رہا۔

شہید گلاب عرف نور اپنے نام کی طرح خوبصورت جذبات رکھنے والے نوجوان تھا جس نے اپنے کردار سے بلوچ سماج میں نور ہی نور پھیلا دیا ہے. گلاب کا پھول محبت کی علامت ہے اس کے شوخ رنگ جذبات کے اظہار کا موثر ذریعہ ہیں، جب گلاب شاعری میں آتا ہے تو شاعر اسے محبت کی ڈوریوں میں پرو کر اپنے الفت کا اظہار کرتے ہیں.

اسی طرح شہید گلاب اپنے وطن کی محبت میں آسودہ خاک ہوا اور رہتی دنیا تک ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا.

دوستوں کی شہادت نہ صرف مجھے بلکہ تحریک سے جڑے ہر فرد کے لئے قوت اور توانائی کا باعث بنے گی۔ بلوچ قومی تحریک انہی شہیدوں کے لہو سے مشکل حالات میں بھی رواں دواں ہے. بلوچ شہدا کے لہو کی بدولت آزادی کا درخت ایک تناور شکل اختیار کرتا جارہا ہے اور مظلوم اقوام کے فکر اور سوچ کو سیراب کرتا جارہا ہے۔