وہ اکیلا گیت کی طرح مجھ میں گونج رہا ہے ۔ محمد خان داؤد

142

وہ اکیلا گیت کی طرح مجھ میں گونج رہا ہے

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

یا تو ہر درد کو معنیٰ ہے
یا تو درد کو کوئی معنیٰ نہیں
پر اس کا درد کس خانے میں رکھا جائے گا؟
معنیٰ کے خانے میں یا کوئی معنیٰ نہیں والے خانے میں؟
شاید اس کا درد اس خانے میں رکھا جائے گا جس کے لیے کافکا نے کہا تھا کہ
”بس درد کو جھیلنے کے بعد ہی سمجھا جا سکتا ہے!“
تو اس نے درد کو کیسا پایا ہے؟کتنا جھیلا ہے؟اور درد کو کہاں رکھا ہے؟
اس میں تو اب درد کسی گیت کی طرح بجتا ہے۔اب تو اس کے پاس کوئی ایک درد نہیں پر دردوں کے دفتر ہیں ایسے دفتر جن کے لیے لطیف نے ”وتھان!“الفاظ کو استعمال کیا تھا۔
”مون وٹ سور وتھان“
میرے پاس دردوں کے باڑے!“
میں،آپ،یہ،وہ سب ایک ایک درد سے جی رہے ہیں پر وہ تو دردوں کے وتھانوں کے ساتھ جی رہی ہے تو ہم اس کے دردوں کو بے معنیٰ نہیں کہہ سکتے ہم اس کے دردوں کو با معنیٰ کہتے ہیں تو ہم اس کے دردوں کوکوئی معنیٰ نہیں رکھتے نہیں سمجھتے ہم اس کے درد کو معنیٰ سمجھتے ہیں درد،درد ہوتا ہے چاہیے اسے کوئی اُلٹا لکھے یا سیدھا اور جب درد طویل ہو جائے تو اس کیا نام دیا جائے؟

وہ درد نہیں،بے معنیٰ درد نہیں پر طویل درد کے ساتھ جی رہی ہے
ہم بس درد کے ”د“ سے واقف ہیں پر اس پر درد اپنے تمام تر الفاظ کے ساتھ بہتا ہے،برستا ہے،اور درد،درد بن کر روتا ہے اور اوراور
آکاش روتا ہے
چاند دیکھتا ہے
شبنم برستی ہے
”سامونڈی سارے متھے تڑ گزاریاں
مونکھے تھی مارے، بیلی انھن سندھیوں گھالڑیوں!“

یہ تو شاہ نے ان کے لیے لکھا جو جا تے اور لوٹ آتے اور جو نہیں آتے۔نہیں لوٹتے ان کے لیے شاہ نے بھی کچھ نہیں لکھا ان کے لیے تو بس معصوم بیٹیاں روتی ہیں ماتم کرتی ہیں بند دروازوں کی معمولی سی آواز پر اُٹھ بیٹھتی ہیں،فکر مند رہتی ہیں جب ہاتھوں کو مہندی لگانے کی عمر ہو تی ہے تو اس عمر میں وہ ماؤں کے آنسو پونچھتی ہیں اور اداس راتوں میں رو تی ہیں ایسی بیٹیوں کے لیے لطیف نے کچھ نہیں لکھا پر اگر شاہ جو رسالو غور سے دیکھا جائے تو جو شاہ نے لکھا ان ہی مظلوم بیٹیوں کے لیے لکھا!
”سڑھ سیانوں چوئے،تہ مان سامونڈی آھیان
ماں نہ مُئی جو ھوئے من جانی کو ھن جھاز م!“
یہ شاہ نے کس کے لیے لکھا ہے؟ان کے لیے جن کی دید منتظر ہے،جن کی آنکھوں کو پیا ملن کی آس ہے،جن کی آنکھوں سے بے تحاشا آنسو بہہ چکے ہیں،جن کی دید کمزور ہوچکی،رو رو کر جن کا نور جا چکا،جن کی نظر چلی گئی،جن کی بند اور کھلی آنکھوں سے وہ شبہ بھولتی جا رہی ہے،جو اب یاد کرنے پر جان پا تے ہیں کہ وہ کیسے دکھتے تھے،وہ کیسے تھے،ان کا رنگ کیسا تھا،وہ آخری بار کن کپڑوں میں تھے،وہ کیا تھے وہ کون تھے وہ کہاں گئے؟وہ سب بھولتے جا رہے ہیں
وہ بھی تو انسان ہیں پتھر تو نہیں کہ دردوں ے دفاتروں وتھانوں کے ساتھ جی پائیں
اس لیے وہ درد بے معنیٰ نہیں
وہ درد با معنیٰ ہے
وہ درد سہل نہیں
وہ درد بہت تکلیف دہ ہے
وہ درد ہنستا نہیں
وہ درد ررُلاتا ہے،
کافکا کی بات بلکل درست ہے کہ
”بس درد کو جھیلنے کے بعد ہی سمجھا جا سکتا ہے!“
تو اس نے درد کو دیکھا بھی،محسوس بھی کیا،سمجھا بھی اور جھیلا بھی اس کا درد بے معنیٰ نہیں اس کا درد با معنیٰ ہے جو درد بھی شال کی گلیوں میں رُلاتا ہے کبھی کراچی کی سڑکوں پر لے آتا ہے،کبھی سخت سردی میں اسلام آباد میں اداس کیمپوں میں بٹھادیتا ہے
مائیں انہیں یاد کرتے کرتے مر گئیں
درد نہیں مرے!
”سب مرجا تے ہیں
تم نہیں مرے اے درد؟“
وہ دردوں کے ساتھ بسر ر رہی ہے تمام صبحیں اور تمام شامیں!
آخری بار کمرے کے باہر سے بہار اس سے ہاتھ ملا کر پھر آنے کو کہہ گئی اور اب تک نہیں لوٹی
اس کی آنکھوں میں رنگوں کو آنا تھا!
اس کے ہاتھوں میں پھولوں کو کھلنا تھا
اس کو بہار بننا تھا
پر اب اس کی آنکھوں میں ساون ٹھہر سا گیا ہے
ہاتھ بس درد کی لکریں کھنچتے رہتے ہیں اُلٹی سیدھی
اور میں یہاں ان پیروں کا تو ذکر ہی نہیں کر جن پیروں نے کیا کیا تکلیف جھیلی ہیں
سسئی اور اس کے پیر ایک جیسے ہیں
سسئی اور اس کے درد ایک جیسے ہیں
سسئی اور اس کا سفر ایک جیسا ہے
سسئی اور اس کا پنہوں ایک جیسا ہے
اس کے درد کو معنیٰ ملنی چاہیے
کوئی تو لطیف جیسا آئے اور اس کا نوحہ لکھے
کوئی تو شاہ جیسا آئے جو پتھروں کو پارت کرے
”ڈونگر مون سین روئے
کڈھی پار پنہوں جا!“
”اے پتھرو!میرے ساتھ روؤ
لے کے نام پنہوں کا!“
کوئی تو بھٹائی جیسا آئے جو اس کے ساتھ مشاہداتی اور دردوں کی دنیا میں جائے
درد اور سسئی ایک بات ہے
درد اور سمی ایک بات ہے
کیا ہم سمی کے حوالے سے خدا سے ایسی شکایت کر سکتے ہیں کہ
‏oh god!thou forgive my little jokes on thee
‏and I would forgive your bigger ones on me!
”اے مالک مجھے وہ سب چھوٹے چھوٹے مذاق معاف کرنا جو میں نے آپ سے کیے
اور میں آپ کو وہ بڑے مذاق معاف کرتا ہوں جو آپ نے مجھ سے کیے!“
پر وہ اسے کیسے بھول سکتی ہے
جو ساون بن کر اس کی آنکھوں میں برستا ہے
جو سفر بن کر اس کے ساتھ چلتا ہے
جو منزل بھی ہے اور سفر بھی
جو درد بھی ہے اور مرہم بھی
جو آنکھیں بھی ہے اور آنسو بھی
کاش کسی دن سمی اپنی باتوں میں یہ اظہار بھی کرے کہ
”وہ اکیلا گیت کی طرح مجھ میں گونج رہا ہے“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں