ہانی بلوچ واقعہ،حقیقت کیا ہے؟
قسط 2
تحریر : محسن رند
دی بلوچستان پوسٹ
پچھلے تحریر میں جو سچ میں جانتا تھا اسے قوم کے سامنے لانے کی کوشش کی تاکہ لوگ اس واقعے کی حقیقت سے آگاہ ہوں۔ ھانی کی عظیم قربانی کو وہی قدر ملے جو شاہ داد، احسان،آفتاب اور دیگر ہزاروں شہداء کی قربانیوں کو حاصل ہے۔
اس تحریر میں ان سوالوں کا جواب بھی دوں گا جو ٹویٹر سپیس پر مجھ سے پوچھے گئے تھے۔ اس کے ساتھ بی ایس او ظریف کے دوستوں کے جھوٹے قصوں کو تہہ بہ تہہ کھول کر سچائی قوم کے سامنے لانے کی کوشش بھی کروں گا۔
پہلی بات جو ظریف گروپ کی طرف سے مجھ سے میری اصل شناخت کا پوچھا گیا، کہا گیا محسن رند کوئی فرضی نام ہے۔ جو شخص اپنا شناخت ظاہر کرکے ریاست کی بربریت پر لکھتا ہے انہیں یہ ریاست گراؤنڈ پر رہنے دیتی ہے ؟
ھانی کے بارے میں لکھی گئی تحریر میری پہلا تحریر نہیں، اس سے پہلے میں کئی واقعات پر تحاریر لکھ چکا ہوں۔ جو مقدس سرزمین سے میری محبت اور اس کے لئے قربانیاں دینے والے شہداء کے آخری لمحوں میں ان کے جذبات افسانوں کا نام دے کر لکھتا رہا ہوں۔ اس لئے میں اپنا شناخت ظاہر نا کرنے کا پابند ہوں۔لیکن اگر وہ بضد ہیں تو ھانی کے موبائل سے میرا نمبر نکال کر مجھ سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ میرا فون نمبر اس کے موبائل میں میرے اسی نام سے محفوظ ہے۔
بی ایس او کے سیکرٹری انفارمیشن اورنگزیب نے دوغلا پن سے ھانی کی شہادت کو طبعی موت قرار دے کر اس کے قربانیوں کو مزاق میں اڑایا۔
جیئند بلوچ اور شیر باز بلوچ جو بی ایس او کے مرکزی رہنما ہیں کہتے ہیں۔ 23 ستمبر کی شام 6 بجے کے وقت جب طلباء ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے تو پولیس سے ہاتھا پائی ہوئی جس میں ھانی زخمی ہوئے جس کا ثبوت پروٹیسٹ کے ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے وہ ہمیشہ ریلی کے فرنٹ لائن پر رہی ہیں۔ اس کے برعکس اسی تنظیم کے اورنگزیب باقی کچھ لوگ کہتے ہیں 6،7 بجے کے وقت پولیس سے ہاتھا پائی نہیں ہوئی۔
اسی ہاتھا پائی میں ھانی کو پیٹ میں لات مارا گیا جس سے وہ گر گئیں۔ سنگت بلوچ (فرضی نام) جس کے ہاتھ میں پاور بینک تھا اس نے پاور بینک اسی پولیس والے کے سر پر مارا۔ ھانی کے جانے کا وقت سب 6 یا 7 بجے بتا رہے ہیں۔ لیکن یہ چھپایا جا رہا ہے کہ وہ گئی نہیں تھی وہ زخمی ہوئی اسے ہسپتال لے جایا گیا۔
دوسری بات جو اورنگزیب نے کہا ایک ہفتے پہلے ھانی نے کوڈ ویکسین لگائی تھی جو کہ بالکل جھوٹ ہے۔ شاید اس سے وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے گویا اس کی شہادت کوڈ ویکسین کے منفی اثرات کی وجہ سے ہوئی ہے۔ میں اس واقعے کی سچائی سامنے لانے کی مجبوری میں اس بات کا اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دسمبر 2020 کو ھانی سے میرا رابطہ ہوا۔ ہمارا رشتہ نظریاتی بنیادوں پر تھا۔ نظریاتی رشتے سے مراد ایسا رشتہ جس میں اپنے سرزمین سے بے انتہا محبت اور قوم میں غلامی کا احساس پیدا کرکے جہد کے لئے تیار کرنا۔
آج سے تقریباً ایک مہینے پہلے ہم دونوں نے کوڈ ویکسین کے لئے ایک ساتھ آنلائن رجسٹریشن کرایا تھا۔ ایک ساتھ ویکسین کرانے کا طے ہوا تھا۔ لیکن 9 ستمبر منگل کے دن جب پہلی بار اس کی طبیعت خراب ہوئی تھی تو وہ ڈاکٹر کے پاس گئی۔اس کا چیک اپ ہوا ٹیسٹ ہوئے غالباً 13 ستمبر کے دن اس کا ڈائبٹیز رپورٹ پازیٹو آیا تھا۔ اس نے مجھے وہ رپورٹ وٹسیپ کیئے تھے۔ شومئی قسمت میں ہمیشہ رات سونے سے پہلے سارے کنٹیکٹ چیٹس ڈیلیٹ کرتا ہوں۔جس سے وہ رپورٹ بھی ڈیلیٹ ہوگئے۔ میں پھر بھی کوشش کررہا ہوں مجھے ان رپورٹس کی فوٹو کہیں سے ملے تاکہ سوشل میڈیا پر شیئر کرسکوں۔
شوگر کارپورٹ پازیٹو آنے کی وجہ سے کوڈ ویکسین لگانے کا پروگرام اس کے ٹھیک ہونے تک معطل ہوا تھا۔
پہلے تحریر میں لکھا تھا سنگت بلوچ کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔ ہمارے سوشلسٹ دوستوں نے سنگت سے مراد ھانی سمجھ لیا جبکہ اس سے دو پیراگراف اوپر سنگت بلوچ کے آگے فرضی نام لکھا۔ یاد رہے سنگت بلوچ وہی شخص ہے جس نے پاور بینک پولیس والے کے سر پر دے مارا تھا۔
اب یہ ڈاکٹر ہی جانتے ہیں جب کوئی شوگر کی مریضہ ہو۔ اس کو کوئی زخم آئے اس کا خون آسانی سے نہیں رکتا۔ ھانی کا بھی یہی حال تھا۔ لیکن اس کا خاندان جو لڑکیوں کے باہر نکل کر حقوق کی بات کرنے کو عیب سمجھتے ہیں۔ جنہوں نے کئی مرتبہ ھانی کا موبائل چھین کر اس کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگائی تھی۔ کچھ دنوں بعد جب اسے ایس بی کے (SBK WOMEN UNIVERSITY) جانے کے اجازت ملتی جہاں اس کا داخلہ ہے۔ تو وہ پھر سے طلباء کے حقوق کی خاطر، بانک کریمہ کی خاطر،زاکر مجید کی خاطر روڈوں پر نکل پڑتی۔
جس سے اس کے بھائی تنگ آچکے تھے۔
ھانی کو گھر میں بند کرنے کی وجہ سے اس کا نام یونیورسٹی سے سٹرک آف بھی ہوا تھا۔ اس کی پڑھائی کافی متاثر تھی۔ وہ اپنے گھر والوں کے رویئے سے ذہنی دباؤ کا شکار تھیں۔
جب ھانی ہسپتال میں تھی اس کے لئے گھر سے بار بار کال آرہے تھے۔ گھر والوں کے ڈر سے مکمل علاج کیئے بغیر ہی اسے جانا پڑا۔ گھر میں ایسا کوئی نہیں تھا جس سے وہ اپنا دکھڑا سناتی اسی وجہ سے اس نے شوگر کا مرض بھی ان سے چھپایا تھا۔ اسے زخموں اور شوگر کے مرض سے زیادہ اس بات کا ڈر تھا رات کے اس وقت جب گھر جاؤں تو گھر والے کہا کہیں گے۔اس بات کا اعتراف کامریڈ سعدیہ بلوچ ٹویٹر سپیس پر کرچکی ہے کہ جب وہ گھر پہنچی تو اس کے گھر والوں نے اس کا موبائل چھینا تھا۔ شہید ھانی نے اپنے بھابھی کے موبائل سے دوستوں کو پیغام بھیجا کہ میرے نمبر پر ٹیکسٹ نا کریں۔
ان ساری باتوں کا علم اورنگزیب کو بھی تھا۔ اس نے یہ سب کچھ چھپائے رکھا۔
اگر بی ایس او کے ٹویٹر آفیشل ہینڈل کو دیکھا جائے تو اس نے ھانی کو شہید قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ بی ایس او ظریف کے تمام دوست اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے شہید ھانی لکھے جارہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نیچرل ڈیتھ نہیں شہادت کی موت مری ہے۔
ھانی کی شہادت کے حقائق پر بی ایس او ظریف کے دوست کہہ رہے ہیں کوئی سکرپٹڈ ڈرامہ ہے۔ ھانی کی شہادت کا واقعہ آپ لوگوں کے لئے ڈرامہ یا ناول جیسی کہانی ہوسکتا ہے پر ہمارے لئے ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ ھانی کی شہادت ایک قومی صدمہ ہے۔ اب مزید اسکی شہادت کو جتنا بھی طبعی موت ثابت کرنے کی کوشش کریں وہ تاریخ میں اپنے لئے جگہ بنا چکی ہے۔بلوچ عورتوں کے لئے ایک آئیڈیل شخص بن گئی ہے۔ وہ شہدا میں شمار کی جائے گی۔ اس کی تصویر 13 نومبر کے دن اٹھایا جائے گا۔
شال کے شاہراؤں پر ھانی الگ روپ میں ابھر کر مزاحمت کرتی رہے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں