ایک تھی سائرہ،ایک تھا درد_محمد خان داؤد

166

ایک تھی سائرہ،ایک تھا درد

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

 

پہلے تو درد نہ ہو، اگر درد ہو تو انفرادی نہ ہو، درد کو اجتماعی ہونا چاہیے
فرد کو درد،گلی کا درد، محلے کا درد، شہر کا درد ملک کو درد
پر وہ انفرادری درد کا شکار ہے اور نہیں معلوم کہ وہ درد اجتماعی درد کب بنے گا؟
کب درد رقم ہوگا؟
کب درد قوم کا میراث بنے گا؟
درد کے واسطے کب ہاتھ بلند ہونگے؟
زباں درد کا نوحہ کب پڑھیں گی؟
کب درد کا نوحہ لکھا جائیگا
اور کب قوم آگے بڑھ کر اس سے کہے گی”بیٹی یہ تیرا درد نہیں یہ ہمارا درد ہے“
پر فل وقت تو وہ ایک ہی اس درد کو جھیل رہی ہے جو تین سال گزرنے کے باجود بھی درد اجتماعی درد نہیں بن سکا،جو درد شال کی گلیوں سے نکلا اور کراچی کی شاہراؤں تک پہنچا پھر بھی انفرادی رہا
جو درد کئی کلو میٹر سفر طے کرتا کہاں سے کہاں پہنچا پر وہ درد دلوں کا سفر نہ کر پایا
جو درد بلوچستان کی گلیوں سے چلا،مسنگ کیمپ پہنچا،ماتمی گلیوں سے ہوتا کراچی پریس کلب کے در پر پہنچا
پر اس درد کے واسطے دل کی کھڑکیاں نہ کھلیں جہاں درد معصوم چیخ کی صورت داخل ہوجا تا
اور چنگاری کی صورت عیاں ہوتا۔

مجھے نہیں معلوم کہ اب تک سائرہ کا درد،دلوں کے دروازوں تک کیوں نہیں پہنچ پایا
وہ سائرہ جو بہت چھوٹی ہے
وہ سائرہ جو کراچی کی گلیوں سے واقف نہیں
وہ سائرہ جو دھرنوں میں بات کرنے سے پہلے بھی رو تی ہے اور بعد میں بھی
وہ سائرہ جو شاطر نہیں!وہ سائرہ جسے ایک بھی شعر یاد نہیں
وہ سائرہ جو بلوچستان سے آئی ہے اور کراچی کی گلیوں میں رُل گئی ہے
وہ سائرہ جو اپنے لبوں پر ایسی شکایت لانا چاہتی ہے پر نہیں لا سکتی
”کملی کر کے چھڈ گئے او
پئی کھک گلیاں تاں رولاں“
وہ سائرہ جو روتی زیادہ ہے اور بات کم کرتی ہے
وہ سائرہ جسے دیکھنے والے،سننے والے دوسری حسیبہ قمبرانی کہتے ہیں
حسیبہ بھی تو بھائیوں کو یاد کر کے روتی تھی اور سائرہ بھی بھائیوں کو یاد کر کے روتی ہے
حسیبہ کے بھی دو بھائی گم تھے سائرہ کے بھی دو بھائی گم ہیں!
وہ سائرہ جس کے ہاتھ میں مائیک کانپتا ہے
وہ سائرہ جس کے ہاتھوں میں گم شدہ بھائیوں کی تصویریں ہیں
وہ سائرہ جو بارش میں بھی بھیگ رہی ہے پر اپنے بھائیوں کی تصویروں کو بارش کے قطروں سے ڈھانپ رہی ہے
وہ سائرہ جو مقرر نہیں
جو غموں کی ماری ہے
جس کا دل ایسا ہے جس کے لیے بابا فرید نے کہا تھا کہ
”درداں دی ما ری دلڑی علیل اے!“
آخر سائرہ کا درد اجتماعی درد کب بنے گا؟
آخر ہم کب جان پائیں گے کہ سائرہ دردوں سے چور چور ہے
آخر ہم کب آگے بڑھ کر سائرہ سے کہیں گے
”سائرہ یہ درد تمہارا نہیں یہ درد ہمارا ہے!“
نہیں معلوم اس مفادات کی دنیا میں ہم سائرہ سے بس اتنے الفاظ”تمہارا نہیں ہمارا!“ کہہ بھی پائیں گے کہ نہیں معلوم نہیں کہ ہمارا یہ الفاظوں کا مختصر سا سفرہماری مفاداتی زباں سے ادا بھی ہو سکے گا یا نہیں
بُلیا کی جانے میں کون؟
کنفیوشس کے پاس کچھ لوگ آئے اور کہا ہم بہت دکھوں میں ہیں ہم کیا کریں؟
کنفیوشس نے کہا
”شاعری میں پناہ لو شاعری دکھوں کو جھیلنا سکھاتی ہے“
پر میری اس بلوچ بہن کو تو شاعری بھی نہیں آتی میں اس سے کیسے کہوں کو شاعری میں پناہ لو شاعری دکھوں کا جھیلنا سکھا تی ہے۔

سائرہ کا تو سارا جیون دردوں اور نوحوں میں بسر ہو رہا ہے اور درد بھی ایسے کہ نہ ختم ہونے والے نہ مرنے والے
نجیب محفوظ نے لکھا تھا کہ
”اس دنیا میں تجھے عورت کے آنسوؤں سے زیادہ پاک شے کوئی نہ ملے گی“
یہ بات تو عورت کے آنسوؤں کی ہے پر نجیب نے بھی معصوم بچیوں کے آنسوؤں کا ذکر نہیں کیا
وہ آنسو کتنے پاک ہو نگے جو آنسو سائرہ نے اپنے بھائیوں کی یاد میں بہائے ہیں؟
ان آنسوؤں کو کن خانے میں درج کیا جائے؟
شال کی گلیوں سے لیکر کراچی کی دھول کے شور میں گم ہو جانے والے
کاش اس درد کو سمجھ پائیں جس درد میں سائرہ گرفتار ہے
بہت سا درد،اندھا درد،نہ نظر آنے والا درد
نجیب محفوظ نے ایک جگہ لکھا تھا کہ
”میں اس سے کھُلی فضا میں ملا کرتا تھا،اکیلے،
باتیں بھی ہو تی تھیں تو بانسری کے ذریعے
اور ہم اس کائنات کے جلال و جمال میں موسیقی کی تخلیق کرتے
ایک دن میں نے اس سے کہا
”مناسب ہے کہ لوگ تمہا ری بنائی ہوئی دھن سُن سکیں“
اس نے ناراضگی کے ساتھ کہا
”وہ لڑائی۔جھگڑے اور ماتم میں مشغول ہیں!“
میں نے ہمت بند ھا تے ہوئے کہا
”ہر ایک کو وہ لمحہ ملتا ہے جب وہ کُھلی فضا کی آرزو کرتا“
ہم جیسے لوگ لڑائی،جھگڑے اور ماتم ہی میں مشغول رہیں گے؟یا ہمیں بھی وہ لمحہ میسر ہوگا جس لمحے ہم سائرہ کا درد محسوس کر سکے گے اور اس نغمگی کو سن سکیں کے جو ہے تو دردوں کی نغمگی پر ہے بہت رُلانے والی۔

اُٹھو اور اس بچی کے سر سے گرتے دوپٹے کو درست کرو جو بلوچستان سے چلی ہے اور کراچی میں اپنے گم شدہ بھائیوں کو تلاش رہی ہے کسی سسئی کی ماند!
جو اکیلی ہے
جس کا درد بھی اکیلا ہے
ان لفظوں کی طرح کہ
”پیت سجن کی پائل پائل
آیل!آیل!
گھایل گھایل
میرے پیر!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں