منھنجا سوريندڙ سپرين – محمد خان داؤد

188

”منھنجا سوريندڙ سپرين“

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

میں اس نظام کی حامی کیسے بھر سکتا ہوں جس نظام میں ہمارے نوجوان بس اس لیے پھانسی کے پھندوں سے جھول جا تے ہیں کہ ان کے شکم خالی ہو تے ہیں اور بھوکے بچے ان کے سامنے روتے ہیں زمانہ انہیں گالیاں دیتا ہے اور گھر میں ان بن رہتی ہے میں اس نظام کو کیسے قبول کر لوں جو ہمارے نوجوانوں کو ایسے نگل رہاہے،جلا رہا ہے۔مایوس کر رہا ہے اور پھر ان سے ان کی زندگیاں لے رہا ہے۔اور پھر بھی ہم اس نظام کے دم چھلے بنے ہوئے ہیں۔صدام بھی اس نظام کی سیاہ کا ری کا شکار ہو گیا۔ پہلے وہ ملازمت سے نکالا گیا،پھر وہ زمانے کی بے حسی کا شکار ہوا،پھر لوگ اس پر کتوں کی طرح جھپٹے،اس کا شکم خالی تھا۔ وہ کھانے کی لذت نہیں پربھوک کے درد سے آشنا ہوا۔اس کے بچے اس کے سامنے رونے لگے،گھر میں ان بن رہی۔پھر اس نے وہ کیا جو اسے نہیں کرنا چاہیے تھا
پر اس نے کیا۔وہ زندگی سے تھک گیا،بہت تھک گیا۔وہ ہار گیا وہ زندگی سے ہار گیا،وہ محبت سے ہار گیا۔وہ بھوک سے ہار گیا۔وہ بچوں کی چیخوں کے سامنے کیا کر سکتا تھا۔وہ بیوی کے طعنوں کے سامنے کیا کر سکتا تھا،ایسا نہیں کہ وہ بھا در نہیں تھا وہ بہت بھادر تھا،ایسا نہیں کہ وہ سمجھ دار نہیں تھا وہ بہت سمجھ دار تھا۔ایسا نہیں کہ وہ زمانے سے واقف نہ تھا وہ زمانے سے واقف تھا۔ایسا نہیں کہ اس نے زندگی میں ایک بھی اخبار نہ پڑھا ہوا وہ تو بہت سی کتابیں پڑھ چکا تھا،پر وہ بھوک کے درد سے شکست کھا گیا۔اسے نہ تو سیلانی کا لنگر بچا سکا اور نہ ہی وزیر اعظم کا لنگر خانہ،وہ ایک کمیونسٹ تھا اور کمیونسٹ بھوک کے ہاتھوں شکست کھا گیا جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”خدا،خدا ہے
پر پیٹ بھی ڈیڈھ خدا ہے!“

وہ ایسے نظام کا شکار ہو گیا جس نظام میں امیروں کے کتے ڈوگ فڈ کھائیں اور غریب کے بچے کو سوکھی روٹی بھی نہ ملے،جس نظام میں امیر کے دسترکھان پر ایک ناشتے پر ایک لاکھ پھونک دیے جائیں اور غریب کو سوکھی روٹی بھی میسر نہ ہو،وہ ایسے نظام کا شکار ہو گیا جس نظام میں غریب بس اس کام میں آتا ہے کہ امیر کی آگ جلتی ہے رہی صدا م بھی اسی آگ کا شکار ہو گیا اور اس نظام کو معلوم ہی نہیں ہوا کہ ایک نوجوان زندگی سے کتنا دور اور موت کے کتنا قریب پہنچ چکا ہے،کون جانے اور کیوں جانے؟

اور صدام موت کی گہری کھائی میں گر گیا،اب کیا ہوگا؟کیا یہ پہلا نوجوان ہے جو اس نظام کی سیاہ رات کا شکار ہوا ہے؟یا کیا یہ آخری نوجوان ہے جو اس سیاہ نظام کا شکار ہوا ہے؟کیا اس کے بعد بھوک میں جلتے شکم لیکر کوئی بھی نوجوان اپنی زندگی کا انت ایسے نہ لائے گا جیسے صدام یا اس سے پہلے نوجوان زندگی سے دور ہو گئے اور موت کے قریب؟

نہیں صدام کے بعد بھی کئی نوجوان موت کے کنارے کھڑے ہیں نہیں معلوم کہ اگلا نمبر کس کا ہوگا
شاید میرا؟شاید تمہارا؟کیوں جس نظام میں ہم جی رہے ہیں وہ نظام زندگی بخش نہیں پر موت لانے والا نظام میں جس نظام میں امیروں کی حیات پر کوئی اثر نہیں پڑتا پر غریبوں کی زندگیاں ختم ہو رہی ہے اور وہ سب کچھ چھوڑ کر موت کو اپنی بانہوں میں بھر لیتے ہیں کیوں کہ وہاں ان پر کوئی نہیں بھوکے گا،وہ ان پر کوئی نقطہ چینی نہیں کریگا،وہاں ان کے شکم بھوک سے درد نہیں کریں گے،وہاں ان کے سامنے ان کے بوڑھے والدین بھوک سے پریشان نہیں ہونگے،وہاں پر ان کے بچے روٹی کو نہیں ترسیں گے،وہاں پر ان کے گھر میں ان بن نہیں رہے گی،وہاں پر کچھ بھی نہیں ہوگا،جب زندگی ہی نہیں ہو گی تو وہاں پر کیا ہوگا؟

صدام بھلے کچھ بھی نہ ہو،وہ ایسا بھی نہ ہو کہ اس کی اس خبر کو اتنی ہی اہمیت مل سکے جتنی اہمیت حریم شاہ کو پاکستانی میڈیا میں ملتی ہے۔بھلے صدام کی موت کی خبر اس شہر کو اک پل کے لیے بھی نہ روک سکے،بھلے صدام کی موت کوئی اتنا بڑا واویلہ پیدا نہ کر سکے،بھلے وہ گم نام رہے اور موت بھی گم نام!
وہ کچھ بھی نہ تھا،ہاں وہ کچھ بھی نہ تھا،معاشرے کے لیے اچھا سوچنا،برابری کی باتیں کرنا،کسی ایک دو مظاہروں میں شریک ہو جانا،ہاتھوں میں کسی کی کوئی تصویر تھامیں کوئی سیلفی لینا اور پھر اسے اپنے سوشل اکاؤنٹ پر پوسٹ کرنا،کچھ لکھنا،پڑھنا،کچھ باتیں کرناکیا اس سے اس شہر کو معلوم ہو پائیگا کہ رات کون زندگی سے دور ہوگیا؟اور یہ شہر سوچتا رہ جائے کہ اس سے کہاں اور کیا غلطی ہوئی کہ اک نوجوان نے موت کو گلے لگا دیا؟
نہیں بلکل بھی نہیں
یہ شہرِ یاراں کچھ نہیں جانتا کچھ بھی نہیں
پر اس ماں کو کن الفاظ میں دلاسہ دوں جب اس کی شور پر آنکھ کھلی ہوگی تو اسے معلوم پڑا ہوگا کہ اب اس کا جواں سالہ بیٹا نہیں رہا،میرے پاس کوئی الفاظ نہیں،کیا آپ کے پاس الفاظ ہیں
اگر آپ کے پاس الفاظ ہیں تو اس ماں کو کوئی دلاسہ دے دیں جس کا جوان بیٹا اس نظام کی سیاہ کا ری کا شکار ہو گیا اور کسی کو معلوم بھی نہ ہوا
نظام کی سیاہ کا ری کا شکار ہونے والا صدام بھلے کچھ بھی نہ ہو
پر اس ماں کے لیے وہ ”منھنجا سوريندڙ سپرين“تھا
اور ”سوریندڑ سپرینء“ کیا ہوتا ہے؟
کوئی جائے،اس ماں سے پوچھے
جو ماں آج یتیم ہوئی ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں