‘ماما’ اک کردار – دیدگ نُتکانی

483

‘ماما’ اک کردار

تحریر: دیدگ نُتکانی

دی بلوچستان پوسٹ

شال میں ہلکی ہلکی بوندا باندی ، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ، پرندوں کی چہچہاہٹ اور رنگا رنگ پھولوں کی بہار میں اتوار کا دن تھا, ایسا خوشگوار دن جس کا اُس کو برسوں سے انتظار تھا, وہ کئی دنوں سے ‘ماما’ کے انتظار میں تھا, ماما جو دن بھر اپنے تنظیمی ذمہ داریوں اور روزگار کے مسائل میں مصروف رہتا آخر کار اُس کیلئے وقت نکالنے میں کامیاب ہوگیا.

ہوا کچھ یوں کہ سچ کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے مسافر کی طرح اُس نے خود کو پایا ,کبھی کسی محفل, کسی دیوان کسی عقائد کی گرداب میں الجھا ہوا, تو کہیں پہ کئی کئی راتیں اکیلے سوچوں میں پڑے گزار دیتا,گویا وہ بن منزل مسافر تھا یا بغیر کشتی کے ناخدا ! زندگی کے اسی پیچ و خم میں اُسکی ملاقات ‘ماما’ سے ہوئی جو اس کہانی کا سب سے اہم کردار ہے.

ماما جو حرص و حوس سے پاک, نام و شہرت سے دور, پیسہ و دنیا سے ماورا انسان جو اپنی ذات کے اندر ایک پوری کائنات سموئے ہوئے تھا, جو اپنے اندر ایک مکمل فلسفہ تھا جسکی ایک ایک بات سے مہر و محبت جھلکتی, جب بولتا تو محفل کی توجہ سمیٹ لیتا ورنہ عموماً کمرے کے ایک کونے میں بیٹھا موبائل پہ کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا, شائد موبائل پہ پڑھنے کی وجہ بھی دکھاوے سے اجتناب کرنا تھا, یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ماما کسی بھی شخص کیلئے ہدایت کا ایک سرچشمہ تھا, غور طلب بات ہے جو شخص اپنی ذات میں اس قدر پختہ, کامل اور ہر طرح کی مادیت پسندی سے ماورا ہے تو اُس مقدس مقصد اور منزل کا اندازہ کوئی کیسے لگا سکتا ہے جس کیلئے ماما جیسے لوگ دن رات, جوانی اور زندگیاں قربان کر رہے ہیں.

کوئٹہ ہوٹل پہ انتظار کرتے ہوئے اچانک اُسکی نظر ماما پہ پڑی جسکا وہ کافی وقت سے انتظار کر رہا تھا, اُلجھے بال, گھنی داڑھی, نظریں نیچی, کندھے پہ کالی چادر, لال آنکھیں جیسے کئی دن سے بے خوابی میں مبتلا تھا, سنگت کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح ایک ہلکی سی ہنسی دے کر بیٹھ گیا.

ماما کو دیکھ کر اسکے چہرے پہ الگ قسم کی تازگی تھی جیسے برسوں سے انتظار میں تھا کہ کچھ کہہ سکے ,کچھ سیکھ سکے اور کچھ گِلے شکوے کر سکے لیکن روایات کے مطابق بلوچی حال احوال ہوا اور پھر دونوں دنیاوی باتوں میں مشغول ہوگئے.

اُسے جامعہ کا وہ وقت یاد آرہا تھا کہ جب وہ اپنی ذات میں گُم طرح طرح کی حرکتیں کرتا اور ذاتی خوشنودی کیلئے دن رات شغل میں مگن رہتا, دارالحکومت کی عیاشیوں میں مبتلا سارا دن ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا جنکی زندگی کا مقصد ناچ گانا ہنسی مزاق سے بڑھ کر کچھ بھی نہ تھا اور ایسے میں اُسکے اندر کہیں دور پڑی چنگاری انتظار میں تھی کہ کب کوئی اسکو جلا کر شعلہ کر دے, اُسے وہ سب یاد آرہا تھا جب ماما کئی کئی دن اس کوشش میں رہتا کہ کہیں اس سے بات کرنے کا موقعہ ملے اور اپنا پیغام پہنچا سکے, اُسکی آنکھوں کے سامنے وہ سب لمحات عکس بن کر آرہے تھے کہ جب ماما نے اُسکی تمام الجھنیں دور کیں تذبذب کے شکار خیالات کو ایک راستہ دیا اور انفرادیت سے نکال کر ایک قومی جُہد کا راستہ دکھایا کہ ہزار منزلوں میں ایک منزل یہ بھی ہے جسکی طرف گامزن ہر راہی اپنے آپ میں ایک ‘ماما’ ہے.

ان تمام تر خوبصورت یادوں میں چھپی کچھ کیفیات بھی تھیں یا جن کو شکوے کا نام دیا جائے تو حق بجا ہوگا, وہ سوچ رہا تھا کہ جس بے چینی سے وہ گزر رہا ہے اسکا اظہار ماما سے کرے, ماما کو بتائے کہ قومی جُہد کا یہ مقدس راستہ تو اُس نے دل سے قبول کر لیا ہے اور اس راستے میں پڑے پتھر ہٹانے کیلئے اُس نے خود کے ساتھ عہد کر لیا, لیکن اسکے ذہن میں موجود گھٹن اسکو اندر سے کھا رہی ہے.

وہ کہنا چاہتا تھا ماما جہاں آپ رہتے ہیں وہاں کی تمام تر ایکٹیویٹیز سیاست, سیاسی طریقہ کار, موبالائزیشن کے بارے ہیں اور فینن, گوگی, کامیو کو ڈسکس کیا جاتا ہے لیکن جہاں اُسنے شعور پہنچانا ہے وہاں تو عوام اس بحث میں الجھن کا شکار ہے آیا عمران تبدیلی لا سکے گا ؟
وہ بتانا چاہتا تھا ماما وہاں لوگ نہ قومی جُہد سے واقف ہیں نہ قومی جذبے سے, نہ وہاں کوئی بانُک کی شہادت کے بارے میں بات کرتا ہے نہ حسیبہ کے آنسو دیکھتا ہے, وہاں نہ کسی کو ماہرنگ کی قربانیوں کا پتہ ہے نہ مہلب کی چوڑیوں کا, کتاب دوستی تو دور وہاں اپنی تاریخ و تہذیب بھی بھول چکے ہیں. یہ سب باتیں اُسکے ذہن میں گردش کر رہیں تھیں کہ وہ قومی شعور جسے وہ آگے پہنچانے سے قاصر تھا اب اس کیلئے مستقل اذیت کا سبب تھا. اُسکے ذہن میں سرائیکی کے وہ مصرعے گردش کر رہے تھے کہ
کملے ہاسے تاں ٹھیک ہاسے
شعور پاکے اداس تھئے ہیں
وہ بتانا چاہتا تھا ماما جب آپ کے ذہن میں ہمہ وقت ایک ہی نظریہ, ایک ہی فلسفہ سوار ہو جس کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہو پھر بھی کچھ کرنے سے قاصر ہو تو وہ شعور صرف اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں.

وہ کہنا چاہتا تھا جب آپ دن رات کی محنت سے کچھ سنگتوں کو نظریاتی بنیادوں پہ تیار کریں کہ وہ اپنا وقت اس راستے میں قربان کرنے کیلئے تیار بھی ہوں لیکن نئے سنگتوں کا اُن “Political giants” سے استحصال ہوتا دیکھنا بھی ایک کرب ہے. وہ giants جن پہ سپیریئرٹی کا بھوت سوار ہو اور اپنے علاوہ سب کو کم تر نظر سے دیکھتے ہوں اور اگر کوئی تنقید برائے اصلاح کرے تو ذاتیات پہ آجانا اور اختلاف کو دشمنی میں ڈھال دینا شامل تھا.

ان تمام تر چیزوں میں خود کو محرک رکھنا اور ان منفی اثرات کو ذہن پہ حاوی نہ ہونے دینا بھی شائد ایک قسمی آرٹ ہوگا. وہ یہ سب باتیں کہنا چاہ رہا تھا لیکن ماما کی معصوم ہنسی نے اُسے خاموش کرادیا اور یہ سوچتے ہوئے کہ ماما نے کتنی مشکلات بغیر گلے شکوے کے چُپ چاپ جھیلیں ہونگی تو وہ کیوں نہیں کر سکتا.
وہ مشہور لائن اس کے ذہن میں گھوم رہی تھی
‏” A man has to sacrifice each and everything to provide for the next generation of men ”
اُس نے یہ سب باتیں ذہن سے نکال دیں اور ‘ماما’ سے بقیہ تنظیمی حال احوال کرنے لگا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں