ورلڈ بلوچ آرگنائزیشن کے سربراہ میر جاوید مینگل نے کوئٹہ واقعہ میں نوجوان فیضان جتک کے قتل کو 73 سالہ جبر کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے بربریت کا مظاہرہ پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ادارے ہر روز کرتے ہیں، اس سے قبل تربت میں طالب علم حیات بلوچ کو بوڑھی والدین کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا اور اس واقعے پر ندامت کے بجائے ایف سی حکام نے ایک سپاہی کا انفرادی اور جذباتی عمل قرار دیتے ہوئے حقائق پر پردہ پوشی کی۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح معصوم بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا یہ انفرادی عمل نہیں بلکہ بلوچ قوم کے بارے میں ان کی اجتماعی سوچ و ذہنیت ہے، جس کا اظہار پاکستانی فوج وقتاً فوقتاً کرکے اپنی حاکمیت اور بلوچوں کو غلامی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش میں 30 لاکھ بنگالیوں کو موت کی گھاٹ اتارا گیا اور 3 لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی گئی اب وہ پریکٹس بلوچستان میں دہرائی جارہی ہے، پاکستان کی فوج نے تاریخ میں آج تک کسی دشمن کے خلاف کوئی جنگ نہیں جیتی ہے بلکہ ہر چار اور پانچ سال بعد اپنے ہی ملک میں مظلوموں کو قتل کرکے فتح کے جھنڈے گاڑھے ہیں، فوجی جرنیلوں نے جو تغمے سجائے ہے وہ کسی اور ملک کو فتح کرنے کے لئے انہیں نہیں دئیے گئے ہیں بلکہ بلوچ، سندھی اور پشتونوں کی نسل کشی پر بطور انعام میڈل اور تغموں سے نوازا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بعض لوگ اپنی محب الوطنی ثابت کرنے کے لئے بلوچ قومی مفادات کے خلاف استعمال ہورہے ہیں وہ یہ یاد رکھیں وہ جتنی بھی اپنی محب الوطنی کا ثبوت پیش کریں کام نکلنے کے بعد انہیں بھی معاف نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں بلوچ ہونے کی سزا بھگتنی پڑے گی۔
میر جاوید مینگل نے مزید کہا کہ اتنے مظالم کے باوجود بلوچ قوم سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اچھے پاکستانی بن کر پاکستان کا جھنڈا اٹھائیں کوئی بھی باضمیر بلوچ ریاست کے ظلم و بربریت بھول کر ایسا کبھی بھی نہیں کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قوم اپنی حاکمیت کی بحالی اور قومی شناخت و بقاء کے لئے متحد ہوجائیں بصورت دیگر وہ اس طرح ظلم کی چکی میں پستے رہیں گے اور لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔