ہر حکومت میں بلوچستان کیساتھ رویہ نوآبادیاتی طرز کا رہا ہے – ماما قدیر

162

حکمران قیات کی طرف سے اس امر کی ایک بار پھر توثیق ہورہی ہے کہ پاکستان میں آمریت جمہوریت سمیت چاہے جیسی بھی حکومت ہو اس کا بلوچستان کی طرف رویہ نوآبادیاتی اور بلوچ قوم کے خواہشات کے منافی رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کیلئے کیمپ میں کیا۔

کراچی پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4216 دن مکمل ہوگئے۔ لیاری عوامی محاذ کے عبدالخالق زردان، جنرل سیکرٹری عیسیٰ بلوچ، شکیل ایڈوکیٹ، عمران فاخر اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ سابق دور حکومت میں بلوچستان میں ریاستی طاقت کے بے رحمانہ استعمال اور بلوچوں کو لاپتہ کرنے اور ان کی تشدد زدہ لاشیں پھینکنے کے بڑھتے واقعات پر اعلیٰ قیادت بظاہر شور مچاتی نظر آئی اور یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ وہ اقتدار میں آکر بلوچوں کیخلاف طاقت کا استعمال بند کردینگے لیکن اقتدار میں آنے کے بعد بلوچستان کے بارے میں وہی روش اختیار کرچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی بلوچستان میں فوجی طاقت استعمال کی جارہی ہے۔ گذشتہ روز فورسز کی جانب سے بولان اور ہرنائی کے علاقوں میں آٹھ گھںٹوں تک مختلف اطراف میں مارٹر گولے فائر کیئے گئے، مذکورہ علاقوں میں چھوٹی چھوٹی آبادیاں پھیلی ہوئی جن کا پیشہ مالدار ہے، خدشہ ہے بڑے پیمانے پر گولہ باری سے جانی اور مالی نقصانات ہونگے۔

ماما قدیر نے کہا کہ اگر بلوچوں کا مسئلہ بیرونی مداخلت کا پیدا کردہ ہے تو پھر آپ بلوچ قوم کے ماضی میں لگائے جانے والے زخموں پر مرہم رکھنے کا دعویٰ کیوں کرتے آرہے ہیں۔

دریں اثناء 3 فروری کو بلوچستان کے علاقے نظر آباد تمپ سے لاپتہ جاوید ولد خالد رحیم بازیاب ہوگئے۔

وی بی ایم پی نے نوجوان کے بازیابی کی تصدیق کرتے ہوئے اس کو مثبت عمل قرار دیا۔ وی بی ایم پی کا کہنا ہے کہ ہم امید کرتے ہیں حکومت کئی سالوں سے لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے غمزدہ خاندانوں کو زندگی بھر کی اذیت سے نجات دلائے گی۔

دوسری جانب 14 فروری کو حسان قمبرانی اور حزب اللہ قمبرانی کی جبری گمشدگی کے ایک سال مکمل ہونے پر لواحقین نے ٹوئٹر #SaveQambraniBrothers کے ہیش ٹیگ کیساتھ کمپئن کا اعلان کیا ہے۔

اسی طرح دس سال سے لاپتہ محمد رمضان کے نوجوان بیٹے علی حیدر بلوچ نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر کہا ہے کہ ہم سرکاری اداروں سے دست بستہ التجا کرتے ہیں کہ میرے والد محمد رمضان کو انسانی ہمدردی کے بنیاد پر رہا کیا جائے، دس سال بیت چکے ہیں ہم صرف اسی امید پر بیٹھے انتظار کررہے ہیں کہ محمد رمضان بلوچ کو رہا کیا جائے گا۔

علی حیدر نے لکھا کہ میرے والد کو 14 جولائی 2010 کو اوتھل زیرو پوائنٹ سے اغواء کیا گیا تھا۔

علی حیدر کے ٹویٹ کو بڑھاتے ہوئے سمی دین بلوچ نے لکھا کہ علی حیدر کے والد کو 14 جولائی2010 کو اوتھل زیروپوائنٹ سے علی حیدر کے آنکھوں کے سامنے خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغواء کرکے لاپتہ کیا، والد کی بازیابی کیلئے ہرطرح کےمظاہروں سمیت دس سال کی عمر میں 3 سو کلومیٹر کا کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل لانگ مارچ کیا ہے، دس سال گزرنے کے بعد بھی تاحال لاپتہ ہیں۔

خیال رہے سمی دین لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی ہے۔ ڈاکٹر دین محمد بھی لاپتہ ہے۔ ان کی جبری گمشدگی کو 11 سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔