تعلیم اور سیاسی خیالات – نعمان بلوچ

132

تعلیم اور سیاسی خیالات

تحریر: نعمان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

َبلوچستان آج ایک ایسی صورتحال سے گذررہی ہے جہاں انفلیشن ریٹ اپنی عروج کو چھو رہی ہے، جہاں تعلیم کا فقدان اور منشیات کا قصہ ایک بے رحمانہ تسلسل کے ساتھ رواں ہے ، ایسے میں ہم تمام تر نیم دانشورانہ سماج اور نیم سیاسی شعور سماج میں رہ کر اپنی غلطیوں، اپنی جہالت اور محکومیت کو تسلیم کرنا گناہ کبیرہ سے بھی بدترین سمجھتے ہیں، جسکا نقصان ہمیں ہر زمانے سے اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر کوئی غلام اپنی غلامی کو تسلیم نہیں کرتا، خود کو میر وٹکری سمجھ کر خود سے کم تر ،کم علم شخص پر رعب جماتا ہے اور خواب خرگوش میں مگن ہے پھر وہ کیسے خود کو غلام سمجھ کر غلامی سے چھٹکارہ پانے کی کوششیں کرسکتا ہے؟

بالفرض وہ اپنی غلامی ایک موڑ پر تسلیم کر بھی لیتا ہے تو وہ اپنی غلطیوں پر کام کرنے کی بجاۓ مایوس اور مصروف منافع بخش خیالات میں الجھ کے رہتا ہے، تب بھی وہ محکوم اور غلام ہی رہیگا اور در در کی ٹھوکریں کھائےگا جبکہ عملاً ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائےگا اور کہےگا یہ کام مشکل ہے، ناممکن ہے ۔ بیہودہ دلائل پیش کرےگا تاکہ وہ خود کو مطمئن رکھ سکے مگر کہاں کوئی یوں بدل سکتا ہے ۔ آج سے کئی سال پہلے ہندوستان ریپبلک ایسوسیشن کو اگر سوشلسٹ ریپبلک ایسوسیئشن بنانا بھگت کےلئے مشکل ہوتا اور وہ ناممکن ہی سمجھ بیٹھتا تو آج نہ بھگت تاریخ کے پنوں میں ملتا اور نہ ہی برطانوی سامراج اپنی اختتام کو پہنچتا ۔

کوئی بھی کام مشکل نہیں ہوتا یہ ایک الوژن ہے جبکہ ہر چیز ممکن ہے یہ بھی ایک الوژن ہے ۔ آج ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں سیاسی سوچ ہر شخص رکھتا ہے ،ہر دانشور ہر طبقہ اپنے خیالات پیش کرتا ہے ، علاوہ ازیں عمل کوئی نہیں کرتا بلکہ تنقید براۓ تنقید ہر دیوان کا حصہ ہے ۔ کیونکہ بلوچ معاشرہ اتنا تعلیم یافتہ نہیں ہے کہ شدید تنقید براۓ تعمیر کو برداشت کرے اسکی اصل وجہ یہاں تعلیم کا فقدان ہے۔

کہتے ہیں کہ قدیم زمانے میں سیاسی، معاشی اور سب سے بڑھ کر تعلیمی فقدان دگرگوں تھی سیاسی انشار نے اس کے اتحاد کو قوت نیست و نابود کرکے رکھ دیا تھا۔ تعلیمی کمزوریوں نے اُنکے حالات اور خراب کردیئے تھے اُس قوم کے سیاسی رہنماء و نوجوان ہر ایک مجلس میں سیاسی، تعلیمی، معاشی دیگر تباہ کن صورتحال پر بحث کرتے تھے مگر ان تمام مسائل کا حل پیش نہیں آیا کیونکہ بےوجہ تنقید سے کوئی قوم اب تک نہیں بدل سکا ہے۔

اب تنقید براۓ تنقید کو ہم مدنظر رکھ رہے ہیں ، ان تمام مسائل کا حل اس وقت ممکن ہوا جب قوم کے کسی بڑے سرمایہ دار نے ان باتوں پر غور کیا جو سیاست اور تعلیم سے تو محروم تھا مگر وہ اسی رنج میں گم ہو گیا اور فورًا اپنے تمام تر سرمایہ تعلیم پر خرچ کرتا رہا اس نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں رقم تعلیم پر خرچ کئے جبکہ تعلیم کو عام کرنے میں اسے قریباً بیس سال لگے۔

ایک مجلس میں کسی نے ان سے سوال پوچھا کہ بیس سال سے تعلیم کے اوپر اپنا تمام تر سرمایہ خرچ کرنے سے آپ کو کیا حاصل ہوا؟ اس سرمایہ دار نے جواب دیا کہ میرا تمام تر سرمایہ گیا اور آج میں ایک عام آدمی ہوں اور سرمایہ خرچ کرنے کے پاداش میں آج میں نے ایک تعلیم یافتہ قوم پایا ہے جو مکمل سیاسی شعور رکھتا ہے اور اپنے صحیح غلط میں باآسانی تفریق کرسکتا ہے ۔

کہنے کا مطلب یہ تھا کہ کسی قوم کا سیاست کو سمجھ لینے سے پہلے تعلیم کا ہونا ضروری ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہیکہ بلوچستان میں جتنے بھی دانشور یا عام لکھاری ہیں انہوں نے کبھی سنجیدگی سے تعلیم کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ہے۔ قوم جب تعلیم سے ہمکنار ہوگا تبھی تنقید کو سمجھ سکےگا ، سیاست کو سمجھ سکےگا۔ کامیابی کےلئے سب سے پہلی سیڑھی تعلیم کا حصول ہے اِس کے بعد ہی سیاست یا دوسرے شعبوں کو سمجھنے کی صلاحیت حاصل ہوگی۔ مگر بلوچ کی بدقسمتی یہ ہیکہ وہ سیاست میں سرگرم تو ہوتے ہے ۔ رکشہ ڑرائور سے لیکر طلبہ تک سبھی سیاست سے جڑے رہتے ہیں مگر تعلیمی فقدان ہر گلی میں موجود رہتی ہے۔ کیونکہ سیاست کو بھی سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

مذید برآں ہر تیسرا شخص بڑے سیاسی اور سیاست دان کی حمایت میں مصروف ہوتے ہیں ، کہیں لمبی چوڑی گفتگو زیرِ بحث ہوتی ہے جہاں دونوں کا مقصد عمل نہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانا ہوتا ہے ، اور جب بحث کرتے ہیں تو مجموعہ کامن سینس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا ، انہیں معلوم تک نہیں ہوتا کہ دُم کہاں اور سر کہاں ۔ تو حال کو ایک مثبت عملی جامہ اور سیاسی شعور سے آگاہی کےلئے پھر ہمیں ایک ایڈورڈ سعید کی ضرورت درپیش ہوگی کیونکہ ایڈورٹ سعید کی جو ایک مضمون ہوتی تھی، وہ ناصرف فلسطین بلکہ پوری یورپ سمیت دنیا میں مقبول ہوتا تھا۔

اسکے علاوہ ہمیں ملاؤں کی منفی پروگنڈے کو سمجھنے اور اس نازک مسئلے سے اپنے عوام کو صحیح راستے پر لانے کے لئے ہمیں ٹام پین جیسے لکھاری کی ضرورت ہوگی ، لکین یہاں دانشور اسکے برعکس مختلف مضامین پر آرٹیکل شائع کرتے ہیں جسے میں غلط نہیں کہتا ہوں کاوش لکھنے کی مگر موجودہ صورتحال تعلیمی فقدان کا ہے جسے پورا کرنے کےلئے ہمیں لکھاریوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم سیاسی شعور کو اپنا سکیں اور جناب یہاں جو سیاست ہوتی ہے، وہ انسانی نفوس پر ہوتی ہے اور بلوچ روایات میں یہ عام بات ہے کہ کوئی ٹکری آکے دو تین میٹھے الفاظ سنا کر دورِ حاضر کا فیاض بن جاتا ہے ۔ بقول اُنکے وہ لوگوں کو تعلیم دینگے جس سے وہ سیاست سے واقفیت رکھیں گے ۔ پر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

لیکن یہاں دانشوروں کا ایک اہم کرادر ہوگا کہ لوگوں کو تمام تر مسائل اور سیاست سے واقف کرکے ، جوکہ بلوچستان میں ہر کوئی آکے کتابی مشورے تو دیتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان مسائل کا حل پھر کیوں غائب ہے ؟ مسائل کا حل میرے نزدیک اسوقت ہونگے جب دانشور اور عام لکھاری عملی کام اپنائیں گےجس سے ہر مزدور متاثر ہوسکتا ہے ، یہاں سیاسی گروپ بندی اور عام سیاسی کارکن تک سب جمود کا شکار ہوچکے ہیں ، شاید کہ تعلیم کی کمی ہے اور نیم سیاسی سماج ہے جن کے حوصلے ایک روز آسمان تک پرواز کرتے ہیں تو اگلے ہی پل مایوس ہوکر زمیں پر گرپڑتے ہیں، تعلیم کی کمی کی وجہ سے مسائل کو سمجھنا انکو حل کرنا درست فیصلے لینا کٹھن ہوتا ہے ،اور تنقید کی عدم برداشتگی ہے کیونکہ تعمیری تنقید سے سیاسی ماحول سنجیدہ ہوتی جاتی ہے ورنہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا تنقید براۓ تنقید کے فلسفے کو پہنچ جاتا ہے۔

اسکے برعکس تنقید براۓ تنقید نیم سیاسی نیم دانشوری کم ظرفی اور ایک خشک ماحول کو جنم دیتا ہے۔ ہمارے معاشرے کو تعلیم اور مزدور طبقات کو ٹیکنیکل ایجوکیشن کی اشد ضرورت ہے، ورنہ ہم ستر سال بعد بھی نیم سیاسی ماحول میں رہیں گے ، تعلیم اور عمل کا فلسفہ ہی تعمیر کا جواز ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں