اے بلوچستان! مظلومیت کی تازہ تصویر ہو – شفیق الرحمٰن ساسولی

555

اے بلوچستان! مظلومیت کی تازہ تصویر ہو

تحریر: شفیق الرحمٰن ساسولی

دی بلوچستان پوسٹ

اے لُمّہ وطن! آج یہاں انصاف اپنا حقیقی معنٰی کھوچکا ہے، ایک مخصوص قسم کی ذہنیت کےحامل آپ کے فرزندوں پر ان کی زمین تنگ کرنے کی سازشیں مزید تیز کررہے ہیں، انصاف و مساوات جیسے الفاظ خود اپنے دہرے معیار پر شرم سے پانی پانی ہیں۔ ظلم کی حکمرانی اور لاقانونیت کا بول بالا ہے، مُقتدر قوتوں کی تھانہ شاہی اورمن مانی اس حدتک بڑھ چکی ہےکہ بلوچ کی بے چینی اور بے کلی کا کوئی احساس نہیں، گھروں سے بے گھر سراپا احتجاج شیرزالوں کا کوئی پاس نہیں، ہزاروں بلوچوں کی بے گُواہی و شہادت پر کوئی پشیمانی نہیں۔

تاریخ گواہ ہیکہ آپ نے کیسے کیسے ظلم سہے، عہدِ رفتہ میں ظالم بہروپیئے نے تمہاری تشخص چھین لیا، کبھی ابوجہل و ابولہب کی تصویر بن کر آپ کے مسجد پر حملہ کیئے، یزید کی منافقانہ سوچ بن کر نوروزخان و عبدالکریم خان کو لےگئے، کبھی فرعون کی روح بن کر اسد اللہ مینگل کو بےگُواہ کیا، کبھی شداد و نمرود کی روح بن کر اکبرخان کو شہیدکیا اور ہمیں لڑاکر کبھی ہلاکو کے روپ میں ہماری کھوپڑیوں سے اپنے مینار بلند کیے۔

لُمّہ وطن! وقت بدلا تو ظلم کے انداز بھی بدل گئے: پہلے آپ کے فرزندوں کو صرف گولیوں سے بھون دیاجاتاتھا، اب لاپتہ کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاتی ہیں، پہلے خیمے جلائے جاتے تھے اب بستیاں جلائی جاتی ہیں، پہلے گولیاں برسائی جاتی تھیں، اب بارود برسایاجاتاہے۔ کبھی جنگوں میں عورتوں، بچوں اور بزرگوں کے احترام کا سناتھا، اب ان تینوں کو ظلم کی چکی میں پستے دیکھتاہوں ۔ پہلے ایک وار کرکے سرتن سے جدا کیاجاتاتھا، اب ایک ایک کرکے انسانی اعضا کاٹےجاتے ہیں، پہلے سینے میں گولی اترتی تھی اب سینہ چاک کیا جاتا ہے، پہلے قتل کے فتوے لئےجاتے تھے، اب سرٹیفکیٹ لئے جاتے ہیں، اب ظالموں کو امن کے انعام سے نوازاجاتاہے۔ یہ چلن پرانا ہے، خراج پہلے بھی دیا جاتا تھا اب بھی دیا جاتا ہے، اشرفیوں کا چکر پہلے بھی تھا، دولت و زر کا چکر اب بھی ہے۔

اے وطن بلوچستان! کچھ ناعاقبت اندیش آپ کے ہوکر بھی غیر کے ہیں، آپ کے وہ نافرمان اولاد کیا جواب دیں گے جنہوں نے خضدار، شال، کوہلو میں قتل عام میں دشمن کا ساتھ دیا، جنہوں نے گودار پر اس کے دروازے بند کرنے کی کوشش میں غاصب کا ساتھ دیا۔ جو عزتوں کے گھیرائو میں لٹیروں کے ہمنوا بنے، جو اپنوں کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے، جو فلسطین، کشمیر، بوسنیا پر ظلم کےخلاف تو بولتے ہیں مگر اہلِ بلوچستان پر ظلم کیخلاف چپ رہتے ہیں۔

آپ کے اُن اولادوں کو آج بھی شرمندگی کا کوئی احساس نہیں ہے۔ غلامی کا طوق لئے آپ کے ان اولادوں نے انیسویں صدی کے وسط میں تمہیں ٹکڑے کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیاتھا افسوس! آج بھی وہ ناعاقبت اندیش مکّاروں کا چلن نہیں بدلا، وہ آج بھی غیرکی بول بولتے ہیں، آج بھی رہتے آپ پر اور شکر غیرکا اداکرتے ہیں۔

اے بلوچستان! بس مظلومیت کی تازہ تصویرہو، ظالم کا منحوس چہرہ یہاں بپھرے ہوئے سانپ کی طرح گردش کررہاہے، یہاں موت کا پہرہ ہے، ہر گلی میں موت پھرتی ہے، ہر طرف سے گھیرائو جاری ہے، قیامت کی گھڑی ہے، ہرگھر میں ظلم جاری ہے، دور تلک لہو بکھرا ہے۔

میری محبّت! میں غمزدہ ہوں کہ میری زندگی کے لمحات نے آپ کے خضدار میں بربریت دیکھی، آپ کے شال میں قتل عام دیکھا، ڈیرہ بگٹی پر برستے گولے دیکھے، بولان میں بارود کی بارش دیکھی، کوہلو میں بستیوں کی بربادی دیکھی، توتک میں زندہ درگور فرزندانِ وطن دیکھے، اہلِ گوادر پر ان کے دروازے بند ہوتے ہوئے دیکھے، بولان میں بِلکتے بچے دیکھے، مائوں کو بے بس دیکھا، جوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنتے دیکھا، مستونگ میں درندگی دیکھی، عزتوں کا گھیرائو دیکھا اور آپ کے اولادوں کی مسخ شدہ لاشیں گرتے دیکھا اور عالمی اداروں کی ناانصافیاں بھی دیکھیں۔

اب بھی یہاں بلاوں کی طرح گلیوں میں پھرتی موت دیکھتا ہوں، روتی ہوئی بہنیں دیکھتاہوں، اپنوں کی راہ تکتے ماوں کی زندہ لاشیں دیکھتا ہوں، حسیبہ قمبرانی کے آنسوں دیکھتاہوں، سیمابلوچ کی بے بسی، سمّی بلوچ کے درد، راشدجان کے ماں کی آہ، ذاکرجان کے ماں کی زار، مہلب و ماہ رنگ کے درد کی داستان، نصراللہ بلوچ ماماقدیر اور شیرزال حوران بلوچ کی مدہم چیخیں سنتاہوں۔

اے وطن! آپ کی عِزتیں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوچکےہیں، اسداللہ مینگل، ذاکرمجید، جہانزیب، حسّان و حزب اللہ، دین جان و راشد جان سمیت ہزاروں فرزندوں کی بےگُواہی اِنہیں بے گھر کرچکی ہے۔

میں جانتاہوں کہ زندگی ایسے ہی ہے جیسے کوئی مسافر چند لمحوں کے لئے کسی درخت کی چھاوں میں آرام کرلے۔ یہ بھی سچ ہے زندگی حق پر گزارنا چاہئیے، حق کو معدوم ہوتا ہوا دیکھو تو زندگی قربان کر دینا چاہئیے۔ تمام تر مصلحتوں کو ترک کرکے زندگی راہِ حق کی جھولی میں ڈال دینا چاہیئے۔

زندگی کا سچ یہی ہے کہ ظلم کا ساتھ نہیں دینا چاہیئے، ظالم کے ہاتھوں کو روکنا چاہیئے، ظلم اور جھوٹ کے قدموں کو پسپا کرنا چاہیئے۔ زندگی کے سب لمحے مظلوم کے حق میں گزار دینا چاہئے۔

اے وطن! اسی لئے میں کچھ نتیخہ خیز کام نہ کرسکنے کی وجہ سے شرمندہ ضرور ہوں مگر مجھے اطمینان ہیکہ میں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیاہے، ہمیشہ مظلوم کی ترجمانی کی کوشش کی ہے، میرے پاس بولنے کے لئے دو بول ہیں جو میں حق کی خاطر بول دیتاہوں، میرے پاس لکھنے کو چند الفاظ ہیں، میں وہ لکھ ڈالتاہوں۔ آج میرے پاس حکومت و طاقت نہیں، کسی ریاست کی سربراہی نہیں، میں تلوار نہیں چلارہا، میرے پاس بندوق نہیں ہے، میں ظلم کے خلاف بولتا ہوں، لکھتا ہوں، آپ سے محبت کرتاہوں آپ کے چاہنے والوں سے محبت کرتا ہوں، میں آپ سے بُغض رکھنے والوں کو ناپسند کرتاہوں، میں آپ کے دِیوانوں سے پیار کرتاہوں۔ میرے بس میں جوہے وہی کرتاہوں۔

میری دھرتی! ہمیں معلوم ہےکہ ہم کمزور و بے بس ہیں جبکہ ظالم طاقت و اقتدار کا مالک ہے، جانتے ہیں کہ ہم نہتہ اور مغلوب ہیں اور ظالم جاہ وسلطنت پر قابض ہے، واقف ہیں کہ ہم لاچار وعاجز ہیں ،اس کے مقابل ظالم بااختیار وحاکم ہے۔

اے وطن! ہم مایوس نہیں ہیں کیوں کہ ہمیں اس بات پر پورا یقین ہےکہ ظلم ہمیشہ رہنے والا نہیں ہے،ظلم کو ہر حال میں مٹنا ہے،وہ مٹ کر رہےگا۔ تاریخِ انسانی میں کتنے ایسے سرکش و بدمست مُقتدر قوتیں گزرے، جنہیں یہ خیال ہوچلا تھا کہ وہ فاتحِ عالٙم ہیں، ساری کائنات ان کی ہتھیلی میں پڑی ہے، وہ جب چاہیں جہاں چاہیں جسے چاہیں تختہ ءِ دار تک پہنچا سکتے ہیں یا تاجِ خُسروی پہنا سکتے ہیں، مگرقدرت نے ان سے کیسا انتقام لیا؟ تاریخ نے ان کے ساتھ کیسا کھیل کھیلا؟ انہیں مظلوموں کے پیروں تلے ذلیل ہونا پڑا، اور ان کا وہ حشرہوا کہ وہ تاقیامت درسِ عبرت بن گئے۔ ان شاء اللہ آپ کے نیک اولادوں پر ظلم ڈھانے والوں کا انجام فرعون و نمرود اور شدّاد سے بھی بدتر ہوگا۔ اور وہ دن ضرور آئیگا کہ ہماری مائیں اپنے پیاروں سے ملیں گی، ہماری بہنیں سکون پائیں گی!
اے وطن! آج کیلئے اتناہی۔۔۔۔
وائے وطن ہُشکین دار


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں