بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت آبسر میں گزشتہ سال 13اگست کو کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات مرزا بلوچ کے قتل میں ملوث ایک ایف سی اہلکار کو عدالت نے سزائےموت سنادی ہے۔
حیات مرزا بلوچ کے کیس کی پیروی جاڑین دشتی ایڈووکیٹ کررہےتھے۔
ذرائع کےمطابق تربت کے علاقے آبسر میں ایف سی اہلکار کے ہاتھوں گولیوں کانشانہ بننے والے ایف سی اہلکار شاہدی اللہ کو جرم ثابت ہونے پر سیشن جج تربت رفیق لانگو کی عدالت نے دفعہ 302 ت پ کے تحت سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔
یاد رہے کہ حیات بلوچ کراچی یونیورسٹی میں
شعبہ فزیالوجی میں بی ایس کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے، اور گزشتہ سال اگست کو کروناوائرس کے پیش نظر کراچی یونیورسٹی میں چھٹیاں گزارنے تربت میں اپنے والدین کے ساتھ کھجور کی باغات میں کام پر مصروف تھے کہ قریبی سڑک پر سیکورٹی فورسز کے قافلے پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ کیا گیا تھا۔
جس کے بعد ایف سی اہلکاروں نے علاقہ کو گھیرے میں لے کر قریبی باغات سے حیات بلوچ کو پکڑ کر 8 گولیاں مارکر والدین کے سامنے بے دردی سے قتل کیا۔
حیات بلوچ قتل کے خلاف بلوچستان، پاکستان سمیت بیرونی ممالک میں شدید احتجاج ہوئے اور انسانی حقوق کے تنظیموں نے حکومت پر شدید تنقید کی تھی۔
جس کے بعد ایف سی بلوچستان نے شدید عوامی ردعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے قتل میں ملوث ایک ایف سی اہلکار شاہدی اللہ کو تربت پولیس کے حوالے کیاتھا۔
حیات بلوچ قتل کیس فیصلہ سنانے کے بعد اس وقت سوشل میڈیا میں ملے جلے ردعمل سامنے آرہے ہیں، بعض صارفین نے لکھا ہے کہ حیات بلوچ کو ایک درجن سے زائد اہلکاروں نے والدین کے سامنے اٹھا کر اسکی والدہ کے دوپٹے سے اسکی ہاتھ پاؤں بند کر گولیاں ماری اس عمل میں کئی اہلکار ملوث ہیں لیکن سزا صرف ایک اہلکار کوکیوں؟
تاہم کچھ صارفین ایک اہلکار کی سزا موت کو انصاف سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ مقدمہ حیات بلوچ کے بھائی مراد سعید کی مدعیت میں درج کروایا گیا تھا۔
مراد سعید نے ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا تھا کہ وقوعہ کے وقت تقریباً دن بارہ بجے وہ ڈیوٹی پر تھے جب انھیں یہ اطلاع ملی کہ ان کے چھوٹے بھائی کو ایف سی اہلکاروں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق جب مراد بلوچ بتائی گئی جگہ پہنچے تو ان کے بھائی حیات کی لاش خون میں لت پت سڑک کے دوسری کنارے پر پڑی ہوئی تھی۔
ان کے مطابق میرے والد نے بتایا کہ ایف سی کے دو اہلکار باغ میں آئے اور حیات کو گھسیت کر سڑک پر لے گئے،اور میرے بھائی کو گولیاں ماری۔