ہاں میں زندہ رہونگی – مشمار بلوچ

191

ہاں میں زندہ رہونگی

 تحریر : مشمار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں جانتی تھی تم ایک وحشی، ایک درندے، ایک خوانخوار، ایک کم ظرف ہو تم انسانیت سوز مظالم کے تمام حدیں پار کر چکی ہو تمھارے لئے لفظ انسانیت و انسان کے کوئی معنے نہیں۔ میں جانتی تھی تم ایک کم ظرف ہو تم سے کسی بھی چیز کی امید کی جاسکتی ہے اور میں یہ سب جانتے ہوئے تمھارے ہر مظالم کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تمھارا سامنا کرتی رہی ، میں یہ بھی جانتی تھی کہ تم ایک طاقتور وحشی ہو تمھارے پاس طاقت کے سوا کچھ بھی نہِِیں اور تم مجھے مار سکتی ہو میں ہی تمھاری شکست کی علامت بنونگی۔

لیکن میں تمھیں بتانا چاہتی ہوں کہ تم ایک جسم کو مار سکتے ہو ایک سوچ ایک فکر اور آنکھوں میں سجائے ہوئے خوابوں کو کبھی فنا نہیں کر سکتے تم ایک روح کو جسم سے الگ کرسکتے ہو جو اپنی وطن کی اس مٹی سے جڑی ہوئی ہوتی ہے پس تم اسے اس خاک کے حوالے کرسکتے ہو اور میرے ساتھ بھی ایسا ہی کیا اور مجھے مار نہ سکے ہاں میں زندہ رہونگی ۔

ہاں میں زندہ رہونگی !
میں سوچ بن کر اپنے لوگوں میں ابھرتی رہونگی ایک ایسی سوچ جو تم سے نفرت کا باعث بنے گی، مزاحمت کا درس دے گی اور یہی درسگاہ سے مزید کریمہ جنم لینگے اور تمھارے اس طاقت کا مقابلہ کرتے ہوئے راہ ءِ آذادی پہ گامزن ہو کر اس مٹی پر قربان ہونگے یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا تب تک جب تک آپ کی یہ اکھڑ ظلم ستم آپکی گلے مِِیں پندھا بن کر آپ کی شکست نہیں بنتی ۔

ہاں میں زندہ رہونگی !
ایک حوصلہ بن کر زندہ رہونگی ان ارمانوں کی حوصلہ جنہیں تم نے مسخ کردیے ان ارادوں کی حوصلہ جو کوہ چلتن کی طرح مضبوط ہیں ان امیدوں کا حوصلہ جو تمھارے ہزار ستم ڈھانے کے باوجود ٹوٹ نہ سکے ان ماووں بہنوں کا حوصلہ جنہیں تم نے لاکھ اذیتیں پنچائی مگر وہ پہاڑ بن کر تمھارے سامنے ڈٹے رہیں میں حوصلہ بنونگی تاریخ کی جس میں تمھاری شکست کو مزید واضح کردونگی ۔

ہاں میں زندہ رہونگی !
میں ابتدا ہوں انتہا نہِیں اس لئے میں ایک نئی جہد کی آغاز نئی جنگ کا ابتدا بنوگی جو تمھاری زوال کا سلسلہ مزید تیز کردے گا اور اتنی شدت سے ابھرے گی جو تمھاری یہ ظلم جبر اور اکھڑ کی کارستانیوں کے سفاک عمل کو خاک میں ملا کر تمھیں نیست کر کے دنیا سے تمھاری نقش مٹا دے گا۔

ہاں مِیں زندہ رہونگی !
میں ایک شعور ہوں جس سے روشنی پھوٹتی رہے گی ایک ایسی روشنی جو غلامی کی اس تاریک داغوں کو مٹا کر آذادی کے روشن صبح کا آغاز کردے گا ایک نئی امید جگائے گا ایک نئی نوید سنائے گی۔

ہاں میں زندہ رہونگی !
میں ماہ رنگ میں ہانی گل میں سمی میں حوران میں ماہ زیب بن کر زندہ رہونگی جو شال کی سڑکوں پر مزاحمت کی علامت بن کر تمھارے اس جبر کا مقابلہ کرتی رہیگی تمھیں للکارتی رہونگی میں ہردور میں تمھارے لئے ذہنی و نفسیاتی شکست کا سبب بنونگی۔

ہاں میں زندہ رہونگی کیونکہ میں ایک سوچ فکر نظریہ ہوں اور مجھے تم مار کر بھی مار نہ پاوگے زوال و شکست تمھاری مقدر بنے گی اور میں ہی تمھاری شکست کی علامت ہوں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں