ناؤم چومسکی کے نام کھلا خط – وش دل بلوچ

401

ناؤم چومسکی کے نام کھلا خط

تحریر: وش دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قابلِ قدر محترم جناب ناؤم چومسکی سب سے پہلے میں آپ کو آپ کے 92 ویں سالگرہ کے موقع پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں دوجہان عالم کا مالک آپ کو عمر طویل بخشے تاکہ دنیا کے تمام اجتماعی قوانین کے دھجیاں اُڑانے والے طاقتوں کے چہرے سے پردہ ہٹانے کا سلسلہ جاری و ساری ہو.

میں آپ کے گنے چُنے قارئین میں سے ایک ہوں اور ایک بلوچ طالب علم کی حیثیت سے آپ کے سو سے زائد کتابوں میں سے چند کتابیں پڑھ چکا ہوں جن سے ہمیں عالمی سیاست، ملکی سیاسی گیم یا آہنی مُکا دکھانے والی قوتوں کے کرتا دھرتا سے آگہی ملی ہے اُس کے علاوہ آپ کے قلم سے امڈتا ہوا صفحہ قرطاس پر رقم ہونے والا ہر اصطلاح ہمارے لئے علم و آگہی کا ذریعہ رہا ہے.

سر آپ کو یاد ہوگا آپ نےکبھی پاکستان کے شہر لاہور میں اپنا قدم رکھا تھا آپ کا پاکستان کے اچھے اچھے نام ور دانشوروں سے ملاقات بھی ہوئی تھی آپ نے عالمی سیاست پر شاید لیکچر کا اہتمام بھی کیا تھا وہ دور لگ بھگ 2001ء کا زمانہ تھا، سر یہی وہ دور تھا لاہور سے تقریباً 636 میل دور پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی میں ( بی ایس او آزاد) بلوچ اسٹوڈنٹ آرگُنائزیشن آزاد بڑے زور و شور سے بلوچ سیاست اور بلوچ مسئلے پر اپنا دن رات صرف کر رہا تھا ملکی پریس کلبوں سے لیکر عالمی سیاست کے سامنے بلوچ مسئلے کو لانے کیلئے بڑے بڑے ریلیاں اور مظاہرے لیاری کے سڑکوں پر کر رہے تھے سوچتا ہوں کہ کیا جکارتا اور تیمور کی طرح بلوچستان کا سترسالوں سے زائد عرصہ سے اقتصادی، سیاسی، لسانی اور معاشی استحصال آپ کے ذہن میں کبھی آیا ہوگا کہ نہیں؟ کبھی کبھی سوچتا ہوں 2005 اور 2006 میں بلوچستان پر ایک آہنی اور عسکری مُکا گھمایا جارہا تھا کیا آپ کو اس بارے اس طرح علم ہوا ہوگا کہ نہیں؟ جیسے پینٹاگان کے بجٹ و حرکت سے آپ خوب واقف تھے جس طرح آپ انڈونیشی اسلحہ تاجروں کا پورا فہرست سامنے رکھتے تھے جس طرح آپ ترکی کی ہر حرکت پر اپنا غیرجانبدارانہ تجزیہ کرتے تھے اور اسی طرح ایک آگ کا بھڑکا ہوا شُعلہ اس دھرتی سے آسمان کی طرف اُڑ کر یہ حقیقت بیان کر رہا تھا کہ ایک بدمست جرنیل کے ہاتھوں بلوچوں کو گرم تیل کے ڈرموں میں گاڑ دیا جارہا ہے گھروں کو مسمار کیا جارہا ہے قتلِ عام کا مکمل بازار بنادیا گیا ہے تاکہ پنجاب کے ترقی کا منصوبہ کامیاب ہو.
مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ ہم بلوچ آپ جیسے مہان ہستیوں کے نظر سے اوجھل کیوں رہتے ہیں؟

افریقہ کے بدقسمت عوام کیلئے خوراک اور ادویات مہیا کرنے والے تمام ذریعوں پر پابندی جب لگایا جاتا ہے تو آپ ناؤم چومسکی اس پر انسان دوستی کا حق ادا کرکے پوری دنیا کو بتا دیتا ہے کہ یہاں پر کس کے مفاد کا مسئلہ ہے اور کس ورلڈ آرڈر کے خواب دیکھنے والے کی یہ عمل و حرکت ہے اور جب یورپ پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ دیئے جاتے ہیں چھوٹے ریاستوں پر معاشی یا اقتصادی پابندیاں لگائی جاتی ہے، ویت نام پر چڑھائی کیا جاتا ہے کیوبا پر منشیات اُگانے کا الزام لگاکر اُس پر قبضہ جمانے کا خواب دیکھا جاتا ہے، یاسر عرفات سے معاہدات اور امریکہ کے حق میں عالمی سطح پر صرف اسرائیل کا ووٹ دینا، برطانیہ کے زوال و عروج سے لیکر ہند چین پر تبصرہ کرنے والا میڈیا کے طالب علم “پروپگنڈہ ماڈل” ناؤم چومسکی یہ کیوں نہیں جانتا کہ افریقہ کی طرح بلوچ خطے پر ادویات و خوراک قحط کی شکل اختیار کرچکے ہیں سیندک اور ریکوڈک جیسے عالمی منڈی کے حصہ کہلانے والے پروجیکٹس کے بغل میں قحط سالی سے ہزاروں کی تعداد میں بوڑھے اور بچے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں اور کئی موت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور چند میل کے فاصلے پر کمزور اور لاغر جسموں پر پھوڑے اور کینسر جیسی موزی مرض میں مبتلا لوگ ملتے ہیں جو ریاستی تابکاری کی مہربانیاں ہیں مجھے تو افسوس بھی ہوتا ہے کہ عراق میں صدام کا کُردوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال آپ ناؤم چومسکی کے مذمت و تجزیے کا حصہ بن جاتے ہیں مگر چاغی کے جلتے ہوئے پہاڑ اور پاکستان کا ایٹمی غرور کا اعلان آپ سے اوجھل رہتا ہے.

ترکی جب امریکہ سے خریدا ہوا اسلحہ اور ٹینک مظلوموں پر استعمال کررہا ہوتا ہے تو امریکہ کے ترکی پر اسلحہ بیچنے کا سلسلہ بند ہونے کا تذکرہ بھی ناؤم چومسکی اپنے کتابوں میں کرتا ہے مگر اُسی امریکہ کو یہ مخاطب ہوکر اپنے انٹرویوز کے ذریعے یہ پیغام نہیں دیتا کہ پاکستان کو جو مالی مدد آپ مہیا کر رہے ہیں وہ طالبان ازم پر نہیں بلکہ بلوچ قوم پر استعمال کیئے جا رہے ہیں اُن کے سیاسی، سماجی، ادبی اور ہر مکتبِ فکر افراد کو عقوبت خانوں.میں ڈالا جا رہا ہے اور ان کیلئے بلوچ مسنگ پرسنز کیمپ کا اہتمام برسوں سے آج بھی جاری ہے.

سر آپ جس طرح عالمی سیاست اور عالمی جنگی کھیل پر اپنا تبصرہ کرتے ہیں تو دل کرتا ہے آپ کو بس سُنتا جاؤں پڑھتا جاؤن کیونکہ سچائی بارش کے بوندوں کی مانند اپنا راستہ خود ڈھونڈ لیتا ہے.
سر کل ہی کے دن آپ نے پاکستان حبیب یونیورسٹی میں اپنے 92 ویں سالگرہ پر ویڈیو لیکچر دیا تھا میں ابھی تک وہ لیکچر نہ سُنا ہے نہ دیکھا ہے مگر پھر بھی یہ بات کا احساس ہو رہا ہے کہ ہم اس گفتگو کا بالکل حصہ نہیں ہونگے. اس لئے سوچا آپ کے نام ایک کھلا خط لکھنے کی جسارت ہی کر لوں.

سر آپ نے امریکہ کے ایک قدیم صنعتی علاقے کو امریکہ کا ایتھنز کہا تھا جس میں قدیم عمارتوں کی باقیات آج بھی ملتے ہیں اور وہاں کے لوگ ایتھنز کے اُس دور کا عکس ہیں جو سُقراط، اناکثاغورث، افلاطون اور ارسطو کے فلسفے کے چرچا کا دور ہوا کرتا تھا اور آپ نے اس امریکی ایتھنز کے کچھ منظر بھی پیش کئے تھے کہ کیسے یہ علاقہ خود کو ایتھنز کہلانے پر منوایا.

سر کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ آپ بلوچستان جیسے مفتوحہ خطے پر ایک نظر دوڑاتا آپ کو ایتھنز ہی ایتھنز نظر آتا یہاں تہذیبوں کا مدفون تاریخ ابھرکر اس دھرتی کو ایک الگ پہچان عطا کردیتاہے کراچی لیاری میں آپ ایک قدم رکھتے آپ کو ایتھنز کا اور کچھ نہیں کم از کم سُقراط کے کھیل کا میدان ضرور ملتا موسیقی سازوں کے سرونز کی تخلیق تجھے تخیل میں ضرور لے جاتا، آپ کبھی حب کے قدیم قبروں کی باقیات دیکھتے تو اللہ جانے اس شہر کے اس منظر کو ایتھنز کے کس قدیم عمارت کا نام دیتے، آپ لسبیلہ کے پریوں کا دیس قلات کا منہدم شہنشاہی قلعہ اور میر چاکر کا مہرگڑھ اور بولان سے آتا جاتا خانہ بدوش اور گدانوں میں شبِ محفل کی روشنی اور بلوچی دیوان، ڈیرہ جات میں تہواروں کے موقعے پر کھیلوں کا اجتماعی پروگرام، پنجگور اور پسنی کے ناموں کا تاریخی جائزہ، عطاء شاد کے شہر اور اُس کے شعر و شاعری پر ایک نظر ڈالتا تو ان کو کیا نام دیتے اس کا مجھے اندازہ بھی نہیں ہوسکتا، کیوبا اور دنیا کے دیگر گوریلا جنگجوؤں کے خلاف منشیات کاشت کرنے کے الزام میں ورلڈ آرڈر کے خواب دیکھنے والوں کا چڑھائی کرنا بھی ناؤم چومسکی جیسے مہان ہستی کے کتابوں کا حسین منظر ہے لیکن سر آپ بلوچ جنگجو گوریلاؤں کا بھی کبھی جائزہ لیتا کہ وہ تو منشیات کے کشت و کشار نہیں پھر بھی انہیں امریکی اسلحوں سے نوآبادکار قتل کر رہا ہے، آپ بولان اور کوہستان یا آواران کا دورہ کرتا آپ کو خود اندازہ ہوتا کہ بلوچ کس حالت میں جی رہے ہیں سوئی کے کیسے گیس پلانٹوں کے سائے میں بلوچ کس قدر غربت و مفلسی کے حالت میں جی رہے ہیں، آپ خضدار، مستونگ اور قلات کے ڈیتھ اسکواڈز کو دیکھتے تو شاید یوروپی ملکوں کے امریکی پراکسی ملیشیا کو بہت کم تصور کرتے، داعش کو حکومت کے نشستوں پہ برابر بیٹھا ہوا دیکھتے.

مگر سر یہ بلوچوں کی سرزمین ہے ریڈ انڈیئنز کا امریکہ ہوتا تو آپ ہمارا ذکر دنیا کے سامنے ضرور کرتے ہمارے حالت و زار پر تجزیہ ضرور کرتے چین و پاکستان کا بلوچ پر مشترکہ حملے کو بھی گفتگو کرتے سر آپ کم از کم سی پیک کا جائزہ کبھی غور سے اور قریب سے لیں گے آپ کو چین اور پاکستان کا رویہ بلوچستان پر امریکہ کا کیوبا میں دخل اندازی کا عکاسی نظر آئیں گے. سر آپ تو دنیا کے تمام آزادی پسند تحریکوں کا علم رکھتے ہیں بلوچستان پر برسوں سے ظلم و ستم کا ٹوٹتا ہوا پہاڑ ضرور کسی نہ کسی تاریخی حوالے میں آپ کو مل جائے گا.
سر “کبھی ایک نظر بلوچستان پر بھی” شکریہ.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔