بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے مستونگ سے شاعر،ادیب اور بلوچستان یونیورسٹی شعبہ براہوئی کے چیئرمین ڈاکٹر لیاقت سنی صاحب کی جبری گمشدگی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کا بلوچ قوم کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف ننگی جارحیت ہمیشہ کی طرح جاری ہے۔ ڈاکٹر لیاقت سنی کا اغوا نما گرفتاری اس میں ایک اور دردناک اضافہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایک نئی حکمت عملی کے تحت ڈاکٹر لیاقت سنی کے اغوا کو اغواء برائے تاوان کی شکل دینے کی کوشش کی ہے تاکہ ریاست پر حرف نہ آئے اور بلوچ قومی جذباتوں کا رخ کسی اور جانب موڑا جاسکے۔ لیکن اب ریاست جس بھی روپ میں بربریت کا ارتکاب کرے، بلوچ قوم اسے بخوبی پہچان چکی ہے۔ لیاقت سنی کو جس طریقے سے دن دہاڑے تین گاڑیوں میں سوار افراد نے اغوا کیا ہے، وہ طریقہ کار خود پاکستانی ایجنسیوں کی علامت ہے۔
ترجمان نے کہا ڈاکٹر لیاقت سنی کا اغواء علم و دانش کو لاپتہ کرنے کی کوشش ہے۔ بلوچ قوم کو علمی وادبی میدان میں بانجھ کرنے کے لئے یہ پالیسی دہائیوں سے جاری ہے۔ شال میں علم و دانش کے مینار قندیلِ بلوچ صبادشتیاری کو پاکستان نے قتل کردیا۔ حاجی رزاق،استادعلی جان، پروفیسر رزاق اور زاہد آسکانی سمیت سینکڑوں علم کے چراغوں کو ہم سے جدا کر دیا گیا۔ لیکن غلامی کے تیرگی کے خلاف آزادی کیلئے جدوجہد جاری رہاہے اورآئندہ بھی جاری گا۔ یہ بات طے ہے کہ پاکستان کے حصے میں ٹیچرز، طلبا، خواتین اور بچوں کو اغوا کرنے پر صرف رسوائی ہی آئے گا۔
انہوں نے کہا بلوچ قوم کے خلاف پاکستان ایک کثیرالجہتی حکمت علمی پر مبنی جارحیت پر عمل پیرا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان کے طول و عرض میں فوجی آپریشنوں میں لوگوں کو قتل و اغواء کیا جا رہا ہے۔ گھر، مال و متاع لوٹے اور نذرآتش کیے جارہے ہیں۔ پاکستانی فوج،خفیہ ایجنسیاں اور جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ڈیتھ سکواڈز خونخوار درندے کی روپ دھارچکے ہیں۔ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔بلوچ دھرتی بلوچ عوام کے لئے دوزخ بنائی جاچکی ہے۔
ترجمان نے کہا ہمیں یقین ہے کہ ڈاکٹرلیاقت سنی کو ریاست نے اٹھایا ہے۔اغوابرائے تاوان کی رنگ دینا ریاست کی جانب سے اپنے جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ بلوچستان میں سالوں سے جاری اغواء برائے تاوان کے واقعات میں ریاستی ادارے براہ راست ملوث ہیں۔ بلوچستان ایک وار زون میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ہرکلومیٹرپر فوج و دیگر اداروں کی چوکی اورکیمپوں کی موجودگی میں لوگوں کااٹھایا جانا خود اس امر کی دلالت کرتاہے کہ یہ عمل ریاست کی منشا اور اعانت سے کیا جا رہا ہے مگر ڈاکٹر لیاقت سنی صاحب کواس آڑ میں اٹھانے سے پاکستان اپنے جرائم پر پردہ نہیں ڈال سکتاہے۔