شالہ کوئی مسافر نہ تھیوے – محمد خان داؤد

142

شالہ کوئی مسافر نہ تھیوے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

یہ مائیں،بہنیں،محبوبائیں،بیٹیاں،جو اس مصروف شاہراہ سے گزر رہیں ہیں جس شاہراہ سے کوئی عام مسافر نہیں گزرتا۔ جو شاہراہ امیروں کی ہے اور جس شاہراہ پر وی آئی پی مومینٹ رہتی ہے۔جس شاہراہ پر امیروں کی بڑی گاڑیاں فراٹے سے گزر جا تی ہیں جن کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اس شاہراہ کا کنارہ کنارہ لیے یہ کون سا قافلہ گزر رہا ہے؟ نہ وہ امیر جانتے ہیں نہ ان کی وہ بد مست لڑکیاں جانتی ہیں جو ان بڑی گاڑیوں میں غریب ڈرائیور اور انگلش کتے کے ساتھ بیٹھی ہیں۔کوئی نہیں رکتا اور کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ہجومِ یاراں کیسا ہے؟ یہ سفر کیسا ہے؟یہ مسافر کیسے ہیں؟

اگر کوئی رُک کر تھوڑا سا ہی پوچھ لے گا تو ہر کسی مسافر کی اپنی اپنی کہانی ہے
ہانی بلوچ کچھ اور کہے گی! مہلب اور سمی کچھ اور کہیں گی! راشد کی ماں کچھ اور سنائے گی!
ماہزیب کچھ اور کہے گی!ماہ گنج کچھ اور کہے گی!شازیہ کے پاس کہنے کو کچھ اور ہے!
بلوچ مسنگ پرسن وائیس کے پاس کچھ اور ہے،سندھ مسنگ پرسن وائیس کے پاس کچھ اور ہے
تاج بلوچ کے لبوں پر کچھ اور،انعام عباسی کے پاس کچھ اور
باتیں،زبانیں اور لہجے الگ الگ ہو سکتے ہیں پر ان باتوں،زبانوں اور لہجوں میں جو درد ہے
وہ مشترکہ ہے!
مصروف شاہراہ پر کوئی گاڑی نہیں رُک رہی،اور و ہ قافلہ کنارہ کنارہ لیے اپنی راہ پر گامزن ہے!
یہ درد کی شام کا قافلہ ہے
یہ راتوں کے آخری پہروں کا قافلہ ہے!
یہ ماؤں کے مرجانے،جی اُٹھنے اور پھر مر جانے کا قافلہ ہے
یہ محبوباؤں کا محبوب کے ماتم کا قافلہ ہے
یہ بہنوں کے زخمی پیروں کا قافلہ ہے
یہ معصوم بیٹوں کی باباؤں کی جدائی کا قافلہ ہے
یہ مہلب سمی کے درد کا قافلہ ہے
یہ اپنوں سے اپنا درد کہنے کا قافلہ ہے

پر وہ گاڑیاں نہیں رُکتیں جو اس شاہراہ پر فراٹے سے گزر رہی ہیں جن گاڑیوں میں بیٹھی امیر زادیاں ایسے گیت کو نہیں سمجھ پا رہیں
”شالہ کوئی مسافر نہ تھیوے!“
پر پھر بھی اس اداس گیت کے ردھم پر مہنگا سگریٹ پی کر ڈرائیور کو اس گیت کی تشریع سمجا رہی ہیں
کیا وہ امیر زادیاں
”شالہ کوئی مسافر نہ تھیوے!،،کو سمجھ پا رہی ہیں؟!!!
اگر وہ ایک منٹ رُک کر اپنا سگریٹ بجھا کر ان ماؤں سے بس یہ پوچھ لیتی کہ وہ کنارہ کنارہ لیے کہاں جا رہی ہیں؟
تو ان کے سوال کا جواب پہلے تو بابا فرید دیتا کہ
،،درداں دی ماری دلڑی علیل اے!،،
اگر وہ نہ سمجھ پاتیں تو لطیف اپنی میٹھی بولی میں کہتا
،،جئین کان جیڈیون مون وڈا وس کیا!!!،،
پر ایسا کچھ نہیں ہے،جیسے اسلام آباد میں دردوں کی دکان سجائے بیٹھی آمنہ مسعود جنجوعہ سے کوئی گاڑی روک کر نہیں پوچھتا کہ”بی بی کیوں اداس اداس بیٹھی ہو؟!،،
جیسے کوئٹہ میں کوئی سستی مہنگی گاڑی روک کر ان ماؤں سے نہیں پوچھتا کہ
”اماں کیا بات ہے کب سے یہیں پر بیٹھی ہوئی ہو؟!“
جیسے کوئی مردان میں مشال کے قبر کے سرہانے بیٹھی ماں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ
”انصاف کا کیا ہوا؟“
ایسے ہی مصروف شاہراہ کا کنارہ کنارہ لیے کوئی امیر،کوئی امیر زادی،کوئی میم صاحب کچھ دیر کے لیے ہی صحیح پر رُک کر یہ نہیں پوچھ رہا کہ
”یہ کیسا سفر ہے!“
تو وہ مائیں،محبوبائیں،بہنیں اور بیٹیاں ان میم صاحبوں کا بتا پا تی وہ درد جس درد کو کوئی نہیں سن رہا
جو درد کسی کے کانوں پر بارِ گراں کی طرح نہیں گر رہا
جس درد کو یہ ریاست بھی نہیں سن پا رہی
پھر و ہ مائیں دکھا پاتیں ان کو وہ تصویریں جو ان کے ہاتھوں میں مسلسل رہنے سے مٹ رہی ہیں
جن مٹتی تصویروں میں کوئی ڈاکٹر دین محمد بلوچ ہے تو کوئی راشد حسین
کوئی عاقب چانڈیو تو کوئی سہل رضا بھٹی
پھر محبوبائیں دکھا پاتیں وہ مانگیں جو میلی ہو رہی ہیں جن مانگوں کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”سیندھ تنھنجی میری نہ تھییے
پھول تنھنجا نہ مر جھائیجن!“
پھر بیٹیاں دکھا پا تیں وہ درد جس درد کو ابھی تک کسی نے نہیں دیکھا
پھر بہنیں بن بھائیوں کے وہ زخم دکھا تیں جو زخم انہیں اس معاشرے نے دیے ہیں
پھر مائیں دکھا پاتیں وہ پیر جن پیروں کے ایسے ہی چھیتڑے اُڑ چکے ہیں جیسے زیا دہ چلنے پر چمڑے کے چھیٹڑے اُڑ جا تے ہیں
پھر مائیں ان میموں کو اپنی مسافری کی داستانیں سناتی۔وہ مائیں ان بڑی گاڑیوں میں سوار صاحبوں۔امیر زادیوں،اور میموں کو ان سفروں کے بارے میں بتاتیں جن سفروں میں بس طویل مسافتیں ہو تی ہیں جن سفروں میں کوئی منزل نہیں ہو تی،وہ مائیں ان میموں کو دکھاتی وہ شکتہ پرچم جو پہلے ان ماؤں کے سروں کی چادریں تھیں پر اب وہ مرچم بن چکے ہیں
وہ بھی شکستہ
شکستہ!
وہ مائیں ان بیٹوں کی وہ تصوریں بھی دکھاتیں جو تصوریں زیا دہ دیر تک ہاتھوں میں رہنے کی وجہ سے مٹ رہی ہیں اب ان تصویروں میں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ
یہ مسعود شاہ ہے
یا عاقب چانڈیو
پر لکھا نام چغلی کھا جاتا ہے کہ یہ میلی سی تصویر مسعود شاہ کی ہے
پھر مہلب اور سمی ان کو اپنا وہ درد بیان کرتیں جو درد کو وہ گزشتہ دس سالوں سے بیان کر رہی ہیں
مصروف شاہراہ کا کنارہ کنارہ لیے قافلہ گزر رہا ہے
قافلہ گزر رہا ہے
قافلہ گزر چکا
پر کوئی بھی ایسا نہ تھا جو رُکتا
کچھ دیر کچھ ساعت کے لیے ہی
اور وہ ان مسافر ماؤں سے پوچھتا کہ
”یہ کیا ہے؟“
اور مائیں درد سے کہتیں کہ
”جئین کان جیڈیون مون وڈا وس کیا!!!“
اور وہ پنجابی شہری لہجے میں افسوس کر کہ کہتی کہ
”شالہ کوئی مسافر نہ تھیوے!!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔