سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 42 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

571

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | اومیتانی بانک Princess of Hope

اب کے سواریاں بدل چکی تھیں۔ سعدیہ بلوچ اپنی گاڑی چھوڑ کرہمارے ساتھ جیئند خان کی گاڑی میں آگئیں۔ سعدیہ پرانی دوست ہیں۔ ملتان کے میرے ساتھی میاں اقبال سے کسی سیمینار وغیرہ میں ملی تھیں۔ اُسی حوالے سے مجھ سے فون پر باتیں ہوئی ہوں گی۔ ہم یقیناً ملے بھی ہوں گے۔ مگر جب کوئٹہ دوستوں کے ساتھ ملنے میرے لیب آئیں اور آمنے سامنے بیٹھ گئیں، دوستوں کی طرح باتیں کرنے لگیں تو مجھے معلوم ہوگیا کہ میرے دماغ کے کمپیوٹر میں یاد داشت والا حصہ کرپٹ سا ہوگیا۔ بجائے اس کے کہ موقع کو سنبھالتا، میں بے صبرے نے پوچھا، ”سعدیہ جی، ہم پہلے مل چکے ہیں ناں؟“۔ اس نے سب کے سامنے کھڑاک سے جواب دیا، ”شاہ محمد، شرم کرو“…………۔ اور میں شرم اور تکلف میں آج تک نہ پوچھ سکا کہ ہم پہلی بار کب ملے تھے۔ ایک عمر میں جا کر آپ دماغ کو کھرچتے بھی زیادہ نہیں ہیں۔ چیزوں کو سنجیدہ لینا ترک کردیتے ہیں۔ بس ملے ہوں گے۔………… ہم ہر اُس ذی روح سے ملے ہوں گے جو ظلمتوں سے نفرت کرتا ہو۔

بعد میں سعدیہ کوئٹہ روزگار کے لیے بھی آئیں اور دو چار ماہ ٹھہریں۔ لوگوں سے میل جول رکھا، ہم بس اپنے بے برکت، مگر برحق ادبی سیاسی کاموں میں جتے رہے۔ کبھی ملاقات ہوئی، کبھی فون ہوا، یا کسی کے ہاتھ سلام دعا …… اور آج ہم جادو نگری میں پھر آن ملے تھے، بلوچ نگر میں، افسانوں کی سرزمین میں، ٖآزمانکوں کے دیس میں، مائتھالوجی کے گڑھ میں ………… مگر اب سعدیہ کی بولتی زبان بھی خود کو لگام دے چکی تھی۔ ایسے خوش گوار حیرت کدہ دیکھ چکنے کے بعد جس طرح کی خاموشی بنتی ہے، وہی خاموشی ہماری تھی۔ ایک طرح کا تاسف، ایک احساسِ زیاں کہ ہم کیوں پورا بلوچستان دیکھ نہ پائے۔ کیوں زیادہ گھومے نہیں۔ ایسی بابرکت جگہیں پہلے کیوں نہ دیکھ پائے، مگر اچھا ہوا ہم پہلے یہاں نہ آئے۔ ہمارا سر، جو آج اِس عمر میں بھی مغز سے خالی ہے، تو نوجوانی میں ہم بھلا ہنگول مائتھالوجیکل سائٹ کی قدروقیمت کیا جان پاتے۔

اچھا کیا خدا نے مجھے بادشاہ اور حاکم نہیں بنایا۔ وگرنہ میں بلوچستان کے بہت سارے پیسے ”ضائع“ کرتا۔ میں یقیناً انٹرنیشنل لیول کا ایک بہت بڑا میوزیم بناتا جہاں ہنگول سے متعلق اپنے آباؤ اجداد کی بنائی ہوئی اس ساری افسانوی داستانوں کے مجموعے کو متجسم کرتا۔ ملینوں ڈالر اس پہ خرچ کرتا۔ میں نصاب میں ساری بلوچ مائتھالوجی شامل کرتا۔ بین الاقوامی ریسرچ والوں کو بلواتا۔ ٹورازم کوترقی دیتا ………… اور، اور اور ………… (ہے کوئی جواں مرد جو مجھ شیخ چلی کی ان خواہشات کی پیاس بجھائے؟!)۔

سعیدہ سگریٹ پیتی ہے۔ اس کے کش لینے کی رفتار اور طوالت سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کس قدر گہری سوچ میں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ہماری طرح غیر رومانی سوچوں میں بالکل محو نہ تھی۔ وہ یقیناً دیویوں اور دیوتاؤں کو وصل کی حالت میں دیکھ رہی تھی۔ حیرانی ہوتی ہے کہ پیاسی ارواح اور رومانس سے سرشار خطے میں آنکھیں تو ہم بقیہ سواریوں نے کھولیں، مگر ہم سے ہزار گنا ووکل اور بولڈ و بہادر سعدیہ ہے۔

کار موٹر میں ہم سب زائرین، خاموشی میں حصہ دار تھے۔ ہم ہنگول میں غرق تھے۔ بہت وقت چپ رہنے کے بعد کہیں جاکر ہم بولنے لگے۔ کار میں جب سعدیہ موجود ہو تو باقی تین سواریاں کیا بول پائیں گی۔ وہ کراچی کے صنعتی سماج کی بے تکلفی کی روح تھی اور ہم ابھی غاروں کے سماج کے حجاب کے متعدی مرض میں مبتلا فرسودگی میں گردن گردن ڈوبے ہوئے۔ شاعر، دانش ور اور نئے نئے خیالات بھری وہ لڑکی باتیں کررہی تھی۔ ہم بھیڑ پال لوگ، سعدیہ سے حجاب کے تاثر میں اپنے قبائلی ہم سفروں سے حجاب کے ہاتھوں خاموش تھے۔ ہم سب جنگ زدہ بلوچوں کو احساس تھا کہ ایک اور دُرگوش مہیری کوشتر بچوں کے قتلِ عام کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ ہم خاران اور نوشکی میں سے کسی کو بھی رامین لاشاری بننے نہیں دینا چاہتے تھے۔
وہ بولتی جاتی ہے، بولتی جاتی ہے۔ اور جب موضوع ختم ہوتے ہیں تو ہم مشاعرہ سجا لیتے ہیں۔ اس کار موٹر میں دو شاعر ہیں، سعدیہ اور ضیا۔ مجھے تو شاعروں سے یاری کی بدولت کچھ واہ واہ کرنا آتا ہے لیکن عزیزم جیئند خان تو ایسا بھی نہیں کرتا۔ وہ کار موٹر چلاتا جاتا ہے اور جب تک شاعر اُس کا نام لے کر اُسے شعر نہ سنائے، وہ کچھ بولے بغیر بس سنتا جاتا ہے۔ چنانچہ میں ہی ”ہاں ہاں، ہوں ہوں، دوبارہ پڑھو“، کہتے رہنے کے تکلف میں ڈال دیا گیا ہوں۔ محبت اور مروت میں بہت فرق ہوتا ہے ناں!۔ مشرقی بلوچستان میں واہ واہ کہنا شاعر کی توہین میں شمار ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ کھانسنے سے بھی شاعر برا مناتا ہے۔ یہاں الٹا حساب ہے۔ آپ کو شاعر سے بھی زیادہ بولنا پڑتا ہے: ”واہ واہ، بہت خوب، کیا کہنے مکرر…………“۔

سعدیہ ہی سنا رہی تھی۔ ہمہ زاویہ، ہمہ پہلو………… ایک سٹائل ایک اسلوب، اور ایک سلیقہ والی شاعری جو جدید سے بھی جدید تھی۔ وہ اپنے موبائل سے ہمیں شاعری پڑھ کر سنارہی تھی، ہم مہذب سے بھی مہذب سامعین بنے اُسے سنے جارہے تھے۔ چھوٹی مگر بھرپور اور پُر معنی نظمیں۔ استعارات، تشبیہات، ادائیگی کا انداز ………… انوکھی نرالی نظمیں۔ خود کلامی میں جگ ترجمانی۔ اشاروں کنایوں سے لے کر بھرپور قیسی عریانیت تک۔ پرت در پرت معانی، شدت بھرا، ایک ایک لفظ جاندار، ایک ایک لفظ پُر سوزو پُر درد۔ مکھن نظمیں جو ”واہ واہ“ کی آواز میں پگھل جائیں۔

ضیا شفیع کی شاعری نما چیز بلوچی میں تھی مگر یہاں ایک سواری یعنی سعدیہ بلوچی نہیں جانتی۔ لہٰذا، اُس ایک سواری کی خاطر ہم تین لوگ اپنی مادری قومی زبان نہیں بولے………… بلوچ کی رواداری نے بلوچی کو کتنا نقصان پہنچایا!!۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔