امریکہ طالبان مذاکرات اور بلوچ مہاجرین
تحریر: پروفیسر حسن جانان
دی بلوچستان پوسٹ
نوے کی دہائی میں طالبان کی افغانستان پر حکمرانی اور نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکہ کی افغانستان میں فوجی پیش قدمی کے بعد، 2016 میں ٹرمپ حکومت کی افغانستان سے فوجیوں کے انخلاء کا اعلان ہونے کے بعد، 2017 میں امریکہ کی افغانستان میں طالبان کے ساتھ قطر میں خفیہ ملاقاتیں اور پھر امریکہ اور طالبان کے افغانستان میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے صلح نامے کی پیش کش کا سلسلہ جس میں اشرف غنی کی حکومت میں عید پر جنگ بندی کا اعلان اور عوامی سطح پر امن لانگ مارچ کا سلسلہ اور پھر امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کے زریعے امریکہ کی طالبان کے ساتھ جنگ بندی پر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا، جس کا مقصد افغانستان میں امن و امان کو برقرار رکھنا تھا تاکہ خطے میں امن و امان قائم رہنے کے ساتھ امریکہ کے لیے ایران سے نپٹنے کے راستے کھل سکیں۔ امریکہ جس منصوبے کے تحت اس پروگرام کو آگے بڑھانے کی کوشش میں تھا اس کے تانے بانے ملا اختر منصور کی دالبندین کے علاقے میں ایران سے واپسی پر ڈرون حملہ تھا، جس میں طالبان کے امیر اختر منصور کی 2016 میں ہلاکت ہوئی اور ملاعمر کے بعد سخت گیر موقف کے حامی طالبان کے اس امیر کی موت کے بعد امریکہ کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔
ویسے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے بحث کا آغاز 2013 کو ہوچکا تھا لیکن اسکے بعد خفیہ ملاقاتوں کا سلسلہ اور 2016 کے بعد اعلانیہ مذاکرات کا سلسلہ چل پڑا، طالبان جنہیں ایران کی طرف سے مدد مل رہی تھی، وہ وقتی طور پر ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد متاثر ہوئے، البتہ طالبان کے خفیہ مراسم ایران کے ساتھ رہے، افغانستان میں امن و امان کے لئے امریکہ کے لیے ضروری تھا کہ وہ پاکستان کو اپنی گرفت میں لے جس کے لیے زلمے خلیل زاد کا پاکستان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رہا اور زلمے خلیل زاد و وزیرخارجه پاکستان شاہ محمود قریشی کی بات چیت ہوئی جس میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے افغان طالبان و امریکہ کے بیچ سہولت کار کے طور پر اپنا کردار ادا کیا اور افغان حکومت کو طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے سے انکاری رہے۔
طالبان کا دعوی تھا کہ افغان حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی ہے اور وہ براہ راست امریکہ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور اس دوران 2018 میں روس میں افغانستان حکومت کے کچھ نمائندوں نے روس میں شمالی اتحاد کے ساتھ ایک اجلاس میں شرکت کی اسطرح افغان امن معاہدوں میں روس چین ایران نظر آرہے تھے جبکہ دوسری طرف امریکہ افغانستان اور پاکستان تھے اس طرح ابتدائی شرط وشرائط کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں طالبان قیدیوں کی رہائی پر کچھ مشکلات ابتداء میں سامنے آئے جبکہ اس پر جلد رضامندی ہوگئی اسی طرح خواتین کی تعلیم و سیاست میں انکی حصہ داری اور امریکہ کی افغانستان سے مکمل انخلاء و افغان سرزمین کسی بھی ذریعے سے امریکی مفادات کے خلاف استعمال نہ ہونا یہ تمام شرط شرائط قریباً ایک دوسرے کے لیے قابل قبول ہوگئے۔ ان تمام معاہدوں میں 2019 کو ایک شرط طالبان کی طرف سے پیش کی گئی تھی حالانکہ اکتوبر 2016 افغان طالبان کا ایک وفد پاکستانی حکام سے ملاقات کرچکی تھی۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ افغان طالبان کا وفد افغانستان و پاکستان میں پناہ گزینوں کو درپیش مسائل کے لیے بات چیت کے لیے گیا تھا اس وفد میں ملا سلام حنفی، ملاجان محمد شامل تھے۔
اب افغانستان میں مہاجرین کے حوالے سے طالبان کے شرائط کی کڑی 2016 و 2019 سے ملتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین میں بلوچ مہاجرین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونگے، جس پر بلوچ مہاجرین و سیاسی حلقوں میں 1990 والی جلاوطنی کی یاد تازہ ہونے لگی جب مجاہدین نے پاکستان کی مدد سے افغانستان پر قابض ہوگئے تو مجاہدین نے بلوچ سیاسی پناہ گزینوں کے خلاف اپنی کاروائیاں تیز کردیں اور بلوچ جوکہ پہلے سے مختلف ٹکڑوں میں بٹ چکے تھے پاکستان کے ساتھ بلاشرط شرائط معافی نامہ لیکر بلوچستان میں بس گئے۔ بلوچ جہد کی جو سیاسی حالت تھی وہ قابل رحم تھی کیونکہ بلوچ جہد آزادی کے رہبروں نے اپنی کمزور بساط کے ساتھ روس کے ریڈ انقلاب کی پیش قدمی پر اپنے زمینی حقائق سے قطع نظر دنیا میں بدلتے حالات کے تحت اس دوڑ میں تیزی کے ساتھ دوڑنے لگے۔ کامیابی تو نہ ملی پر قوم میں ایک بیداری ضرور آئی اور جس کے بل بوتے پر یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔ روس ٹکڑوں میں بٹ گیا اور افغانستان حالت جنگ میں رہا جہاں امریکہ کی جیت روس کے منہ پر طمانچہ ثابت ہوا۔ اب ماضی کی طرح حالات ایک بار پھر بلوچ جہد آزادی کے لیے مشکل ہوتے جارہے ہیں۔
ویسے بلوچ جہد میں تقسیم در تقسیم کے ساتھ لیڈرشپ کا فقدان، اداروں کی کمزور ساخت، وسائل کی کمی جیسے مسائل شروع سے ہی رہے ہیں البتہ کسی حد تک بلوچ آزادی پسندوں نے اپنی کمزور قوت بازو کے تحت اپنی جنگ کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں لیکن ایک محکوم قوم جتنی بھی طاقت ور ہو وہ ایک قابض کے خلاف اتنا طاقت ور نہیں ہو سکتا۔ البتہ بلوچ آزادی پسندوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھی اب دنیا کے بدلتے حالات کے ساتھ جہاں بلوچ جہد آزادی ہے وہ مزید پستی کا شکار ہو رہی ہے خطے میں صرف افغانستان کی بلوچ آزادی پسندوں سے ہمدردی کے سواء کوئی خاص مدد و کمک نہ ہونے سے بلوچ مزید کمزور ہو گئے ہیں کیونکہ بلوچ کو افغانستان پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لیے ایک کارڈ کے طور پر دیکھتا ہے تاکہ پاکستان کو بلیک میل کرسکے تاکہ پاکستان طالبان کو افغانستان میں پیش قدمی سے روک لے۔ اسی طرح ہندوستان جو پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لیے بلوچ کی زبانی ہمدردی کے دعوے کرتا ہے جبکہ حقیقتاً کوسوں دور وہ بلوچ کے پاکستان کے تضادات سے نابلد اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر کسی بھی وقت کوئی بھی پلٹا مار سکتا ہے اور ان بیس سالوں میں بلوچ بہ حیثیت کارڈ ہر کوئی دوسرے کو بلیک میل کرنے کے لیے بلوچ مسئلے کو بنیاد بنا کر پیش کرتا رہا ہے تاکہ دوسرے کو بلیک میل کرسکے۔
بلوچستان میں پاکستان کی تسلسل کے ساتھ جارحیت، قتل عام پر افغانستان و ہندوستان خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں کیونکہ انھیں بلوچ سے ہمدردی کے بجائے اپنے مفادات عزیز ہیں، اب حالیہ افغان طالبان کی جانب سے پیش کئے گئے شرائط میں ایک شرط افغانستان میں مہاجرین کی ہے جو افغانستان میں طالبان کے امیر کے ہاتھوں بیعت کریں گے اور افغانستان میں ان پر طالبان عہدیداروں کی اطاعت لازم ہو گی اور وہ کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونگے اور طالبان کے وضع کردہ کیمپوں میں رہیں گے.
افغانستان میں زیادہ تر بلوچ و پشتون مہاجرین کی ہے جو پاکستان کے جنگ زدہ علاقوں سے متاثر ہو کر افغانستان میں بس گئے ہیں۔ اب طالبان کے اس شرط کے اثرات بلوچ مہاجرین پر کیسے پڑیں گے اور وقت کے ساتھ ان شرائط میں کیا تبدیلیاں آئیں گے وہ آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ موجودہ صورتحال میں بلوچ مہاجرین جو پاکستان میں جنگ سے متاثر ہو کر افغانستان میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں انکے حالات پہلے سے مزید کشیدہ ہونگے۔ پہلے سے مہاجریں پر افغانستان میں متعدد حملے ہو چکے ہیں کچھ اخبارات میں رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ چھوٹے حملے اخبارات کی شہ سرخی سے بچ چکے ہیں، جن میں افغان حکومت کی مجبوریاں رہی ہیں البتہ بلوچ اب ان شرائط کے بعد افغانستان میں محفوظ نہیں ہونگے کیونکہ طالبان کے لئے افغانستان میں راستے کھل چکے ہیں افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت اور امریکہ کی انکے لئے راستہ صاف کرنے کے منصوبے صاف دکھ رہے ہیں اب ان حالات میں بلوچ لیڈرشپ کی دوراندیشی و انکے سیاسی فیصلوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ ان حالات میں کونسا راستہ اپنائیں گے۔
ایران کی بلوچ آزادی پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے پیچھے بہت کچھ پوشیدہ ہے اور ساتھ ساتھ ایران کے بارڈر کو محفوظ بنانے کے لیے بلوچ قوم کی کتنی ضرورت پڑ سکتی ہے اسکا ادراک ایرانی حکومت کو اچھی طرح سے ہے اور ایران کی بلوچ کے ساتھ تصادم سے بچنا امریکہ کے لیے ایرانی سرزمین کو آسان نہیں بنانا ہے اور دوسری طرف امریکہ سے دوستی کے خواہش میں یا اسکا پراکسی بننے میں شاید بلوچ اپنی بچی کچھی ساکھ کو بھی گنواں بیٹھے کیونکہ کسی کو پتہ نہیں کہ اندرون خانہ بات چیت کہاں سے شروع ہوتی ہے اور انکے مقاصد کیا ہیں؟ کوئی دوسرا اپنے گراؤنڈ میں آپکو کھلا چھوڑ کر خود میدان سے کس وقت و کن حالات میں غائب ہوگا پتہ نہیں چلتا اور بے یار مدد گار بلوچ پھر ماضی کی طرح اپنے فیصلوں پر پچھتاتا رہے گا۔
اس طرح موجودہ طالبان شرائط بلوچ آزادی پسندوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا اور بلوچ لیڈرشپ اس مسئلے کی باریکی کو سمجھتے ہوئے اپنے لیے لائحہ عمل مرتب کرے کیونکہ بلوچ کا مدد گار بلوچ ہی ہو سکتا ہے کیونکہ دوسروں کو کئی بار آزمایا جاچکا ہے اور نتائج کچھ سالوں بعد ہمیشہ غلط ہی رہے ہیں۔ شاہد ہر دور میں معروضی و موضوعی حالات مختلف رہے ہوں گے لیکن ان حالات کو اپنے حق میں کرنے یا اپنے لابی کو مضبوط کرنے میں بلوچ کو ہمیشہ ناکامی ہی ملی ہے۔ اب موجودہ چین ایران امریکہ پاکستان جیسی طاقتوں کے بیچ بلوچ اپنے منزل کی طرف کن حالات میں پیش قدمی کرے گا یا بلوچ لیڈرشپ ان حالات کو اپنے حق میں کیسے لے آئے گا یہ انکے ان پالیسیوں پر منحصر ہو گا جو انھیں حالات کو سمجھنے کے ساتھ طے کرنے ہونگے نہ کہ جذبات کے بہاؤ میں بہہ کر دنیا کو شکست دینے کا دیومالائی خواب ہمیشہ خواب ہی رہا ہے طالبان جو کہ پاکستان کا ہی بغل بچہ ہے، یہ شرائط طالبان کے ذریعے پاکستان کے ہی ہیں اب افغانستان میں مقیم بلوچوں کے لیے بذریعہ پاکستان زمین تنگ کی جارہی ہے حالات کا تقاضا یہی ہے کہ تمام آزادی پسند اس مسلئے کی باریکی کو سمجھتے ہوئے مشترکہ لاعہ عمل طے کرکے افغان حکومت کے ساتھ کسی منطقی نتیجے پر لے آئیں نہ کہ جتنی دیر ہو گی نقصان بلوچ کا ہی ہوگا.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔