بلوچ ماؤں کے حیاتوں کو رہنے دو – محمد خان داؤد

164

بلوچ ماؤں کے حیاتوں کو رہنے دو

 تحریر : محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

یونان میں جب ماہی گیروں کا مچھلی کا شکار نہیں لگتا تھا، تو وہ اپنے پیٹ کو پیٹتے تھے۔
اٹلی کے ماہی گیر بہت سی دعاؤں کے بعد بھی مچھلی کا شکار نہیں کر پاتے تو مریم کے بیٹے یسوع کے اسٹیچو کو سمندر میں پھینک دیتے تھے۔
چینی لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتی تو وہ دیوتاؤں کے بتوں کو بازاروں میں گھسیٹتے تھے۔
مصر کے قدیم باشندے غم میں مبتلا ہوتے تو اپنے آپ کو گالیاں بکتے اور کہتے
،،اے ذلیل دیوتا
ہم نے تمہیں رہنے کو عالیشان مندر دیا
تمہاری شان و شوکت بڑھائی
تمہیں سنوارا
اعلیٰ طعام دیئے
قربانیاں دیں
چھڑاوے چڑھائے
پھر بھی تو ہم سے بے خبر ہو

پر وہ ماں کیا کرے؟ جس کا وعدے جیسا سچا جوان، بیٹا بلوچستان کے رن میں ایف سی کی درندگی کا شکار ہوگیا۔ وہ ماں کسے گالیاں بکے؟ وہ ماں کس یسوع کا اسٹیچو سمندر میں پھینکے جس کا اپنا یسوع مارا گیا۔

وہ ماں کس کے پیٹ کو پیٹے۔ جو اتنا روئی ہے کہ جس کے نین برسنے سے بس ہی نہیں کررہے!
وہ ماں کسے بازار میں گھسیٹے؟
جو خود تماشہ بن بیٹھی ہے جو اپنا سب کچھ ہار بیٹھی ہے
جس ماں کی اب ایسی حالت ہے کہ
،،میں تماشہ ہوں
میں تماشہ تھا
میں تماشہ ہی رہا
تماشے نے بھی کھڑے ہو کر
میرا تماشہ دیکھا!،،

وہ ماں کسے گالیاں دیں؟ پر اس دن جب وہ ماں ایف سی کو بہت منت کر رہی تھی۔ ان کے پیر پکڑ رہی تھی اپنی پوتی ایف سی اہلکاروں کے پیروں میں ڈال رہی تھی، جب بھی اس ماں کو ایف سی اہلکاروں نے بہت سی گالیاں دیں تھیں، ڈرایا تھا، دھمکایا تھا اور آخر میں بندوق دکھا کر بہت دور دھکیل دیا تھا۔ اور ایک ماں کی آنکھوں کے سامنے جوان بیٹے کو بھونکتی بندوق ایسے کاٹ رہی تھی جیسے سندھ میں ماں کے سامنے کسی جوان بیٹی کو کاری قرار دے کر اس کے سینے میں گولیاں اتار دی جاتی ہیں یا کسی ماں کے سامنے کسی جوان بیٹے کو کارو قرار دے کر بندوق کی آگ میں جلایا جاتا ہے۔ یا سندھ میں ماؤں کے دامنوں سے چپٹے معصوم بچوں کو آوارہ پاگل کتے کاٹ کھاتے ہیں۔
اور مائیں ماتم کرتی رہ جاتی ہیں
اس دن حیات کو بھی بھونکتی بندوقوں نے کاٹ کھایا
اور حیات کی ماں ماتم کرتی رہ گئی!
تو حیات کی ماں
کس مندر میں جائے؟
کسے سنوارے؟
کسے اعلیٰ طعام دے؟
کون سی قربانی دے؟
کون سا چڑھاوا دے؟

وہ ماں تو لُٹ چکی۔ اس کے من کا مندر تو ڈیھہ گیا۔ اس مندر میں رکھی مورتی تو ماری جاچکی۔
وہ بے خبر، بے خبری کی بھینٹ چڑھ گئی
اسے معلوم ہی نہیں ہوا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا؟ اور اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ آگے کیا ہوگا

وہ اس بے حس معاشرے میں بے بس ہے۔ کیا اس کے کچے گھر میں ویگو سے آنے والے آئی جی ایف سی انصاف بھی لائے تھے؟ بہت سے کانوائے میں آئے چیف آف آرمی اسٹاف بھی تو انصاف نہیں لائے تھے جب وہ نقیب اللہ کے بابا سے اسلام آباد میں ملے تھے۔ اگر آئی جی ایف سی کے آنے سے انصاف بھی آتا ہے تو نقیب اللہ کا بابا زندگی کے آخری دنوں تک انصاف!انصاف!انصاف کیوں پکا رتا رہا؟ وہ کیوں روڈوں پر دربدر رہا؟ وہ کیوں آرمی چیف کو اپنا وعدہ یاد دلاتا رہا؟ وہ کیوں یہ کہتا رہا کہ
،،اگر اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا تو وہ کراچی میں خود کو جلا دے گا!،،
انصاف نہیں ہوا
اور اس بوڑھے پریشان پٹھان نے خود کو جلایا بھی نہیں
اس سے پہلے اسے نقیب کی یاد نے جلا ڈالا!

تو تربت کے کچے مکان تک آنے والا آئی جی ایف سی اپنے ساتھ انصاف نہیں لایا تھا۔ وہ تو عوامی رد عمل کو ٹھنڈا کرنے کو اور اہلیان بلوچستان کو یہ باور کرانے آیا تھا کہ وہ اس دکھی خاندان کے ساتھ ہے۔
پر کسی نے بھی اس آئی جی ایف سی سے یہ سوال نہیں کیا کہ
،،اس دن تو سارے ایف سی اہلکار ان نہتے ماں اور باپ کے دشمن تھے آج دوست کیوںکر بن بیٹھے ہیں؟!،،
اور آئی جی ایف سی کے آنے سے کیا وہ حیات بھی لوٹ آئیگا جس کو اس کے خوابوں اور سپنوں کے ساتھ قتل کر دیا گیا؟!
کچھ نہیں لوٹے گا
آئی جی ایف سی کیا آپ اس ماں کے آنسوؤں کو بند دے سکتے ہیں؟
کیا اس ماں کے دل کی رفو گیری کرسکتے ہیں جس کا دل چھلنی ہو چکا ہے؟
کیا اس بوڑھے والد کی بے بسی کو دور کرسکتے ہیں
جس کی وائرل تصویر میں یہ بات عیاں ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتا
وہ فقط زندہ ہے!
جب آپ کچھ نہیں کرسکتے
تو انصاف بھی کیا؟

یہ انصاف نہیں کہ ایف سی اہلکار کو گرفتار کیا جائے، اسکے آئی وٹنس پریڈ کرائی جائے اور بس
آئی جی ایف سی انصاف کچھ اور ہے
انصاف کے تقاضے کچھ اور ہیں۔
اور انصاف کیا ہے وہ اس ماں سے پوچھا جس کا وہ بیٹا قتل ہوا ہے
جو ایک دن میں جوان نہیں ہوا
پر قتل کچھ لمحوں میں ہوگیا۔
میں تو کیا پر دنیا کا کوئی بھی قلم کار اس ماں کو یہ دلاسہ نہیں دے سکتا کہ اس کا بیٹا چاند بن گیا ہے اور ہر روز آکاش پر اس کے آنگن میں چمکا کریگا۔
اگر ایسا ہے
تو آئی جی ایف سی آئیں ہم اپنے اپنے بیٹوں کو قتل کریں اور وہ سر شام چاند بن کر ہما رے آنگنوں میں چمکا کریں گے۔

میں اس ماں کو اس لفاظی سے بھی خوش نہیں کر سکتا کہ
،،دور کیلاش سے
چاند ہمینت کا
میرے من کو ہمیشہ بُلاتا رہا!،،
آئی جی ایف سی ہم نے بس لاشیں دھرتی میں دفنائے ہیں
پر اس ماں نے تو دل میں بیٹے کو دفنایا ہے!
اس لیے یہ دلاسے ماں کے دل کی رفوگیری نہیں کر سکتے
آپ کا آنا اس ماں کے دل کو زندہ نہیں کرسکتا
کوئی تو ایسا ہے جو اس ماں کے زخمی دل پر مرہم رکھے
اور وہ فل الوقت بس وہ صدائے احتجاج ہے جو پو رے بلوچستان سے اُٹھ رہی ہے
وہ موم بتیاں ہیں جو حیات کے غم میں جل رہی ہیں.
وہ گلاب کے پھول ہیں جو حیات کی تصویر پر پسینہ بن کر پگل رہے ہیں
اور ایک وہ احتجاج ہے جو پو رے پاکستان میں ہونے جارہا ہے، جس سے اس ماں کے بیٹا تو نہیں لوٹے گا
پر اس احتجاج سے اس ماں کے دل کی رفو گیری ضرور ہو جائیگی
جس ماں کے دل کی ایسی حالت ہے جس کے لیے بابا فرید نے فرمایا تھا کہ
،،درداں دی ماری دلڑی علیل اے!،،
آئیے ہم سب مل کر 22اگست کو ریاست کو یہ بتائیں کہ
،،بلوچ ماؤں کے حیاتوں کو رہنے دو!،،


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔