بلوچوں کا قاتل کون؟ – دانیال مینگل

310

بلوچوں کا قاتل کون؟

تحریر: دانیال مینگل

دی بلوچستان پوسٹ

یہ تو عام سی بات ہے، روزانہ کے بنیاد پر بلوچ نوجوانوں کو اغوا کرنا اور انہیں کئی سالوں تک ٹارچر سیلوں میں بند کرنا اور پھر اذیت کے بعد انہیں قتل کرکے سڑک کنارے پھینک دینا۔ آپ نے یہ بھی سنا ہوگا کہ نوجوان کے بعد بزرگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا اور پھر خواتین بھی اس ظلم و جبر کے شکار ہوئے، طلباء و طالبات اپنا حقوق مانگنے کے وجہ سے گرفتار ہوئے انہیں بھی سڑکوں پر گھسیٹا گیا، برمش اور ملک ناز کے بعد کلثوم کے ساتھ بھی یہی ہوا، چمن کا واقعہ ابھی تازہ ہے، ہر واقعے کو حادثہ قرار دیا گیا اور ہر قتل کے بعد بیان داغا جاتا ہے کہ آپریشن کے دوران یہ بیچ میں آگئے اور انہیں حادثاتی گولیاں لگیں۔

خیر آگے چلتے ہیں، یہ تو بیگانے تھے، اس ملک کے باسی تھے، مگر اپنوں کا ذرا ذکر بھی چھڑ لیں، ہمارے اس وقت کے دو سینیٹر جناب فرماتے ہیں کہ جن بلوچوں کو مارا جاتا ہے، وہ دہشتگرد تھے، اور پھر پاکستان میں کہیں بھی حملہ ہوتا ہے تو اس کے بعد سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ جاتی ہے کہ حملہ آور کا نام بلوچ مسنگ پرسنز کے لسٹ میں شامل تھا، مگر وہ کبھی ثابت نہیں کر پائے کے کونسے لسٹ میں اُس کا نام تھا، اس کا ٹرینڈ بھی بلوچستان کے کچھ لوگ چلاتے ہیں، اور یہی جناب ہر قاتل کو ملک وفادار اور قتل ہونے والے کو ملک کا غدار قرار دیتے ہیں۔

آپ سب نے پہلے دنوں حیات بلوچ کا نام سنا ہوگا، اگر نہیں تو آئے آپکو بتاتا ہوں کہ وہ کراچی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ تھے اور کرونا وبا کے باعث چھٹیاں گذارنے اپنے گھر بلوچستان کے علاقے تربت پہنچے، وہ بوڑھے باپ کے ساتھ باغوں میں اُن کی مدد کر رہے تھے کہ اچانک وہاں دھماکا ہوا تو کچھ دیر بعد ہی لوگ اُس باغ میں پہنچے اور حیات کو باغ سے نکال کر اسے باند کر سڑک پر گھسیٹا گیا اور بوڑھا باپ التجا کرتا رہا، اُس کا بیٹا بے قصور ہے، اُس نے کچھ نہیں کیا، اُسے چھوڑ دیں، مگر حاکم وقت کے حکم پر اُسے باپ کے سامنے 8 حادثاتی گولیاں مار کر اُسے ہر غم سے آزاد کیا جاتا ہے، جو پورے بلوچستان میں پہلے بھی گھروں سے زیادہ قبریں بنا چکے ہیں، اُن میں سے ایک کے خلاف حادثاتی ایف آئی آر کاٹا گیا اور کہا گیا یہ ہے حیات بلوچ کا قاتل مگر وہ قاتل نہیں، وہ بچے پالنے کے لئے تنخواہ پر کام کرتا ہے۔

اصل میں قاتل کوئی اور ہے، جس نے ہزاروں حیات بلوچ قتل کئے، ہزاورں کو جبری طور پر اغواء کرکے کچھ کی مسخ شدہ لاشیں پھینکے اور کچھ باقی ہیں۔

آخر میں حکمرانوں سے گذارش کہ وہ بتائیں حیات بلوچ اور تمام بلوچوں کو قتل کرنے کا حکم دینے والا کون ہے؟ ایک شخص کو گرفتار کر کے تمام قتل اس کے گریباں میں فٹ نہیں کئے جاسکتے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔