Mother of liberty – میرک بلوچ

221

Mother of liberty

تحریر: میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ظلمت و ذلالت سے صدیوں سے انسانی معاشرہ نبر آزما رہا ہے۔ انسان نے ہر زمانے میں نامساعد حالات کے باوجود ظلمت سے پنجا آزمائی کی اور ذلالت کے ان طاقتوں کو اپنی ہمت و قوت سے شکست فاش دیکر فتح و کامرانی حاصل کی ہے۔

گل زمین کا قرض ادا کرنا ظلمت کے طاقتوں سے ٹکرانا عظمت کی عظیم نشانیاں ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جب گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا جاتی ہے، خوف و دہشت سے انسانی معاشرہ تاریکی میں ڈوب جاتی ہے۔ ظلمت کی طاقتیں انسانیت اور انسانی اقدار کو پیروں تلے روندھتے چلے جاتے ہیں۔ فکر و شعور پر تازیانے برسنے لگتے ہیں۔ تہذیب و تمدن کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ جہل و بربریت سے معاشرے کو بانجھ بناکر علم و آگہی کے سوتے خشک کئے جاتے ہیں ۔ تابع داری اور غلامی کی طوق و زنجیروں کی جھنکار سے انسانوں کی توہین ہونے لگتی ہے ۔ روشنی کے مینارے پر پہرے بٹھائے جاتے ہیں ۔ تو نفی کی نفی کے جدلیاتی قانون کے تحت انسانیت انگڑائی لیتی اور بیدار ہوکر تمامتر حالات کو بدلنے کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔

ڈھنک تربت( کیچ) کا دلخراش صدمہ کوئی انفرادی سانحہ نہیں ہے بلکہ یہ ظلم و بربریت کا تسلسل ہے جو 27 مارچ 1948ء کے قبضے سے شروع اور تاحال جاری ہے۔ عظیم بانک ملک ناز کی شہادت مزاحمت سے ہوئی جوکہ بلوچ تاریخ کا درخشندہ باب ہے۔ شہید بانک ملک ناز نے ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے غنڈوں کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا بلکہ سینہ تان کر مقابلہ کرکے جام شہادت نوش کی اور معصوم و پھول جیسی برمش شدید زخمی ہوئی ۔ ریاستی ڈیتھ اسکواڈ اور ان کے سر پرستوں کو معلوم ہوچکی ہے کہ بلوچ قوم میں اب کوئی خوف و ڈر نہیں ہے۔ بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف کھڑی کی گئی ڈیتھ اسکواڈز فوج کے براہ راست زیر نگرانی گھناؤنا کام کرتے ہیں ۔ ان ڈیتھ اسکواڈ کے سرپرست منشیات کی بین الاقوامی دھندوں میں ملوث ہیں جو کہ فوج کی نگرانی میں انجام پزیر ہوتے ہیں۔

ڈیتھ اسکواڈ کی ان انسانیت سوز اور شرمناک کاروائیاں بلوچ قوم کو خوف زدہ کرنا،انھیں قتل کرنا اور خاص طور پر قومی آزادی کی تحریک سے وابسطہ رہنماؤں و کارکنوں کو ٹارگٹ کرنا ہے۔ 1971ء میں مظلوم بنگالی قوم کی تحریک آزادی کے دوران فوج نے بنگالی آزادی پسند رہنماؤں و کارکنوں کو ٹارگٹ کرنے کیلئے الشمس و البدر جیسے ڈیتھ اسکواڈز تشکیل دیئے ۔ الشمس و البدر کے ڈیتھ اسکواڈ کے غنڈوں نے ہزاروں بنگالی عوام کو قتل کرڈالا اور ان کی لاشوں کی شدید بے حرمتی کی۔ ہزاروں بنگالی خواتین کا ریپ کرکے انھیں مار ڈالا۔ نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے آرمی کیمپوں میں منتقل کئے۔ الشمس و البدر کے ان ڈیتھ اسکواڈز کی نگرانی پاکستانی فوج کے میجر جنرل راؤ فرمان کرتے تھے اور انھیں خصوصی کارڈز جاری کرتے تھے ۔ چونکہ اس قسم کے دہشت گرد گروپ آوارہ، لچے، لفنگوں، چور، ڈاکوؤں پر مشتمل ہوتے ہیں جوکہ غیر منظم و بے ترتیب ہوتے ہیں۔ جب ان کو جدید اسلحوں، گاڑیوں دیگر مراعات سے لیس کیا جاتا ہے ۔ تو یہ خود ریاست کے اندر ریاست بن جاتے ہیں اور انتہائی بے لگام و خودسر ہوجاتے ہیں ۔ اور کسی نہ کسی مرحلے پر ایسی بھیانک غلطی کرجاتے ہیں جسکی وجہ سے اپنی آقاؤں اور سر پرستوں کیلئے رسوائی اور درد سر کا ذریعہ بنتے ہیں۔

ڈھنک کے المناک سانحہ نے پارلیمنٹ پرستوں نام نہاد معتبروں، لالچی و خود غرض مفاد پرستوں کے بھیانک و مکروہ چہروں سے نقاب ہٹادی ہے۔ اور بلوچ قوم کے جزبہ حریت کو ایک نئی سمت دی ہے۔ خوف و ڈر کی زنجیروں کو توڑ کر پوری بلوچ قوم سراپا احتجاج ہے۔ اتحاد و یگانک کا شاندار مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ بانک شہید ملک ناز بہادری، بےباکی، اور مزاحمت کی عظیم علامت بن چکی ہے۔ ننھی برمش ممتا کی چھاؤں سے محروم ضرور ہوئی لیکن تنہا و بے بس نہیں ہے ۔ پھول جیسی برمش سب کے دلوں کی دھڑکن بن چکی ہے ۔ جس طرح 27 مارچ 1948ء کو قبضہ گیر ریاست نے مادر گل زمین کو بلوچ قوم سے چھین کر پوری قوم کو ممتا کی چھاؤں سے محروم کیا۔ لیکن بلوچ فرزند مادر گل زمین کی آزادی کے لئے جہد مسلسل میں مصروف عمل ہیں ۔ہمیں یقین ہے کہ ننھی برمش اور پوری بلوچ قوم آزادی کی روشن سورج کا استقبال کرینگے۔ یہ قربانیاں ضرور رنگ لائے گی۔ بلوچ وطن آزادی کی نعمت سے تا ابد قائم رہے گی۔ اور مادر گل زمین اپنے فرزندوں کو اپنے وسیع و پاک دامن میں بائیں پھیلاکر ممتا کی چھاؤں سے نچھاور کرے گی۔ ہم اپنی عظیم بہن شہید بانک ملک ناز کو mother of liberty کا خطاب دیتے ہیں ۔ شہید ملک ناز mother of liberty


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔