انجیرہ قاتلوں کا آماجگاہ – شعبان زہری

160

انجیرہ قاتلوں کا آماجگاہ

تحریر: شعبان زہری

دی بلوچستان پوسٹ

خوف و خاموشی ایک ناسور اور جان لیوا مرض ہے، جو ایک بار بڑھ جائے تو گَھٹنے کا نام ہی نہیں لیتا- اگر خوف میں رہ کر یہ ظلم کی تاریک راتیں ہمارا مقدر بن ہی رہی ہیں تو پھر کیوں نہ ان کے خلاف آواز اٹھا کر مذمت یا مزاحمت کا راستہ اختیار کرلیں تاکہ جو سکون ہم بہترین معاشرے میں رہ کر حاصل نہ کرسکیں، وہ ہماری آنے والی نسلوں کو تو نصیب ہو-

رات کی تاریکی میں ریاستی آلہ کار اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر تربت کے علاقے ڈنُک میں ایک با ہمت ماں کو بے رحمی سے قتل کرتے ہیں اور معصوم بیٹی برمش کو قتل کرنے کی کوشش میں زخمی کرتے ہیں، تو ان کے خلاف مکران کے ہر شہر میں احتجاج ہوتا ہے، ریاستی اداروں اور ریاست کے خلاف نعرے بازی ہوتی ہے، اور پھر یہ احتجاجی لہر جھالاوان و ساراوان کا رُخ کرتی ہے تو یہاں کے با شعور باسی انسانیت کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے اپنا بہترین کردار ادا کرتے ہیں – کیا ان لوگوں کی اپنی جان کی پرواہ نہیں، کیا اِن کو ریاستی جبر کا خوف نہیں، کیا وہ خود سے محبت نہیں کرتے، کیا یہ باشعور انسانوں کے گھر والے ان سے بیزار ہیں کہ جو روڈ پر ریاست کے خلاف برمش کو انصاف دینے کے لیے سراپا احتجاج رہنے کی اجازت دیتے ہیں ؟ بالکل نہیں-

بلکہ جھالاوان و ساراوان کے یہ باسی جو اس احتجاج میں شریک رہے ہیں، اُن کو انسانیت سے محبت ہے، انسانیت پر ہونے والے ظلم نے اِن کے دلوں سے خوف لفظ کو ختم کردیا ہے یہ انسانی سمندر کی لہریں اب نہ کوئی ریاست روک سکتی ہے اور نہ ہی یہ غیرت مند افراد اس احتجاج کو ختم کرنے دینگے-

کوئٹہ میں ہونے والے احتجاج میں میں میری نظر ایک ایسے پوسٹر پر پڑی جس میں شفیق مینگل، راشد پٹھان، سمیر سبزل، کوہی خان اور قمبر خان کے خلاف ڈیتھ اسکواڈز کی سربراہی کرنے کو دنیا کے سامنے رکھا جا رہا تھا لیکن اس احتجاج میں ثناءاللہ زرکزئی و نعمت زرکزئی (جو کہ براہ راست ڈیتھ اسکواڈز کے کارندوں کو انجیرہ میں پناہ دے کر ریاستی اداروں اور پاکستانی فوج کے ساتھ بلوچ قوم پر آپریشنز میں شریک کرتے ہیں) کی سرپرستی میں ہونے والے مظالم کا کسی نے ذکر نہیں کیا تھا، وہ کیوں؟

اس کے ذمہ دار جھالاوان کے وہ لوگ ہیں، جو خوف و خاموشی میں مبتلا ہوکر ثناءاللہ و نعمت اللہ کے خلاف آواز اٹھانے کو موت کو گلے لگانے کے مترادف سمجھتے ہیں- انسان کا سب سے بڑا دشمن خوف ہے، ظلم کے ساتھ زندگی گذار کر مزاحمت یا مذمت نہ کرنا ایک حیوان کی زندگی کے مترادف ہے- سائے صرف اُنہیں کا پیچھا کرتے ہیں جو روشنی میں ہوتے ہیں اور یہ خوف کے سبب خاموشی سے نسلوں کی بربادی کا بلاوا ہے، خوف میں جینا ایک قید خانے میں ایک اسیر کی مانند ہوتا ہے-

شخصی آزادی اجتماعی آزادی کے بغیر نا ممکن ہے- سماجی مظالم اور معاشرتی برائیوں کے خلاف لب کُشائی نہ کرنا ظالم کے ساتھ ہونے کا ثبوت ہے- جب ظلم بڑھ جاتا ہے تو دو قسم کے لوگ خاموش ہوجاتے ہیں ایک وہ جو بزدل ہوتے ہیں، دوسرا وہ جو خود غرض ہوتے ہیں اور ہمارے سماج میں یہ دونوں پائے جاتے ہیں – جہاں ریاست یا اُس کے کارندے وحشیانہ انداز میں لوگوں کا قتل عام کرتے ہیں، وہاں خاموشی کا مطلب احساس سے خالی اور ضمیر کی سودے بازی ہے- جس رفتار سے کوئی ریاست کھوکھلی ہو جاتی ہے اسی رفتار سے اس کی وحشت میں اضافہ ہوجاتا ہے –

لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہاں (جھالاوان) کے لوگ ریاست و نوابوں کو طاقور سمجھ کر خوشی خوشی ظلم کا سامنا کرکے اپنی باری کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟ دوسری جانب وہ لوگ جو زہری، خضدار و سوراب کے حالات سے ناواقف ہوکر یہ سمجھتے ہیں کہ ثناءاللہ زرکزئی و نعمت زرکزئی کے حلقوں میں رہنے والے افراد خوشی سے رہ رہے ہیں، شاید ان کو کوئی تکلیف پہنچانے والا بَنا ہی نہیں – جو بالکل حقیقت کے منافی ہے – تو پھر وہ( ساراوان) کے لوگ کیسے نعمت زرکزئی و ثناءاللہ زرکزئی کی ریاستی برائیوں کے پردہ دنیا کے سامنے فاش کر سکیں گے- جھالاوان کے اِن شہروں کی ایسی برسوں کی خاموشی و ضمیر کے سودا گری نے کل شہید عزیز تراسانی کی جان نگل لی، اور آج جتک قبیلے کے 4 افراد انجیرہ میں انہی لوگوں کی خاموشی کے بھینٹ چڑھ گئے- آخر کب تک اس خاموشی کو برقرار رکھ کر خود کو ثناءاللہ زرکزئی و نعمت زرکزئی کے صفوں میں برابر کے شریک کرتے رہوگے-

اگر اُس دن جب ثناءاللہ زرکزئی کا شہید عزیز تراسانی کے سینے پر پاؤں رکھ کر بے رحمی سے قتل کرنے کے خلاف زبان بندی کا مظاہرہ نہیں کیا ہوتا تو آج جتک قبیلے کے لوگوں کی ہاتھ باندھے ہوئے قتل کرکے کسی ویرانے میں اُن کی لاشیں ملی نہیں ہوتیں، تمہاری یہی خاموشی ایک دن تمہارے اپنے گھر کی بربادی کا سبب بنے گی-

سب کچھ عیاں ہونے کے باوجود آپ لوگ ثناءاللہ زرکزئی و نعمت اللہ زرکزئی کے دَر کے پجاری بنے ہوئے ہو، کیا اس بات کی اجازت تمہیں انسانیت ، معاشرہ اور اسلامی اقدار یا آپ کا ضمیر دیتا ہے؟ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو کہ کیا قاتلوں کے اس بے رحمانہ رویے میں تمہاری خاموشی تمہیں مکمل شریک نہیں کرتی؟

یہ نام نہاد ریاست کے کرایہ کے قاتل سردار و نواب اپنوں کو بچا نہیں سکے، تو خاک تمھاری سانسوں کی پہرہ داری کرینگے، ثناءاللہ و نعمت زرکزئی کازبہ کے بھیانک انجام سے اِتنے ڈرے ہوئے خوفزدہ ہیں کہ گاڑی میں تو کیا ہیلی کاپٹر میں بھی تراسانی کازبہ کے اوپر سے گزرنے سے گُریز کرتے ہیں، جو نواب اپنے ہی شہر میں اپنے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر سکون کی پانچ منٹ گذار نہیں سکتا، وہ کیا خاک تمہاری ترقی و خوشیوں کا ضامن ہوگا- اگر نعمت اللہ و ثناءاللہ کو طاقتور اور زمینی خدا سمجھتے ہو تو کیوں وہ اپنے شہر آکر اپنے لوگوں کی تعزیت، غم و خوشی میں شریک نہیں ہوسکتے؟ محض فون پر تعزیت و سیاسی بیانات دیکر خود کو احمقوں کی دنیا میں لوگوں کا زمینی خدا سمجھنا کہاں کی خداوندی ہے؟

جتک قبیلے کا واقعہ نہ پہلا واقعہ اور نہ آخری، اگر اس خاموشی کے روزے کو توڑا نہیں گیا تو ایسی بہت سی دردناک کہانیاں انجیرہ میں نجی عقوبت خانوں کی دیواروں کی زینت بنتی رہیں گی- کرایہ کے قاتلوں اور سیاہ کاروں کو پناہ دے کر معصوم انسانوں کو مسجدوں میں قتل کروانے والے یہ نعمت اللہ زرکزئی و ثناءاللہ زرکزئی کے دائیں بائیں بیٹھنے سے تمھارا ضمیر تمہیں ملامت نہیں کرتا؟ یا ہم یہ سمجھیں کہ اس ضمیر کو آگ پر پگھلا کر بے غیرتی میں تبدیل کیا جا چُکا ہے-

رحیم جمالزئی کا اپنے ہی لوگوں کے گھروں کو مُولہ میں نظرِ آتش کرکے عورتوں کو اپنے ساتھ انجیرہ میں ثناءاللہ نعمت اللہ کا چھوکری بنانا اگر تمھارے دل میں انسانیت کے لیے درد پیدا نہیں کرتا، تو خود کو انسان کہنے سے گریز کریں تاکہ با ضمیر لوگوں کی نظر میں انسانیت لفظ کی تذلیل نہ ہو-

مرید جتک کا لسبیلہ وندر میں ناحق شہری کا قتل کرکے 4 دن میں ثناءاللہ زرکزئی کی سفارش پر جیل سے رِہا ہونا اگر تمھیں انسانیت کی تذلیل ہونے کا احساس نہیں دلاتی تو خود کو مُردوں میں گِننے سے بالکل ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں –

حکیم میراجی ڈکیتی کی واردات میں گھروں میں گُھس کر با عزت عورتوں کے کانوں سے بالیاں نکال کر ڈی سی خضدار کے پکڑے جانے پر نعمت زرکزئی کی سفارش سے رہا ہوتا ہے، اگر بلوچیت کی تذلیل نہیں سمجھتے ہو تو خود کو پنجابی کا تھالی چَٹ سمجھ کر اس با عزت شہر سے ہجرت اختیار کرلو، کیوںکہ یہ ڈغار غیرت مند بلوچ شہداء شہید دلوش جان کا مقدس شہر رہا ہے، شہید ضیا جان عُرف دلجان و شہید عبدالصمد عُرف شیرا کا آرام گاہ ہے، شہید بارگ جان کے خُون کا چیدہ ہے، شہید حئی و مَجید جان کا بسیرا اِسی شہر کے پُر رونق فضاؤں میں ہوا ہے-

انجیرہ نام نہاد سرداروں و نوابوں کا قرار دینے والا تخت جھالاوان (نجی عقوبت خانہ) ایک قتل گاہ، قاتلوں کو آماجگاہ اور پناہ گاہ رہا ہے – ریاست کے پیرول پر ثناءاللہ و نعمت اللہ کے سربراہی میں کام کرنے والے مرید جتک، گُل حسن جتک، حبیب جتک، اسلام جتک، ظہوری جمالزئی، رحیم جمالزئی اور حکیم میراجی پاکستانی فوج کے ساتھ مختلف آپریشنز میں شریک رہ کر بلوچ سرمچاروں و عام شہریوں کے قتل میں باقاعدہ ملوث رہے ہیں – ایسی بہت سی ناقَابلِ بیان، دردناک اور ظلمت سے بھری داستانوں سے انجیرہ بھرا پڑا ہوا، جس کا علم عام لوگوں کو شاید نہ ہونے کے برابر ہے – آنکھیں تو سب کے پاس ہیں لیکن بینائی کسی کے پاس نہیں – اگر اب بھی کوئی شخص خود کو پارلیمانی سیاست یا قبائلی تعلق کو ڈھال بنا کر نعمت اللہ زرکزئی و ثناءاللہ زرکزئی کے شانہ بشانہ کھڑے کرتے ہیں تو وہ سب لوگ خود کو مظلوم بلوچ قوم کا قاتل و مجرم تصور کرکے اپنے دلخراش انجام کے لیے تیار رہیں – وہ دن دُور نہیں کہ اِن بھیڑیوں (نعمت و ثناءاللہ) کو آپ لوگوں ضرورت نہیں ہوگی اور تمھاری بھی لاشیں گَڈ میدان کے ویرانوں میں لاوارث پڑی ہونگی، اور اُس دن افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا-

ثناءاللہ زرکزئی و نعمت زرکزئی کے کُمک کار اور پُجاری زیب، سکندر و مہراللہ کے بھیانک انجام کو بھول کر خوش فہمی میں نہ رہیں، کیوں کہ دلجان و بارگ جان نے اپنے جیسے ہزار فکری سنگت جنم دیے ہیں جو تمھارے ناپاک خُون کی چھینٹے اور تمھارے جسم کے ٹکڑوں کو ملغوے و پیمازی کے پہاڑوں تک پہنچانے میں کبھی دیر نہیں کرینگے-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔