کلاس روم سے شورپارود تک : آخری حصہ – میروان بلوچ

683

کلاس روم سے شورپارود تک
آخری حصہ

 تحریر: میروان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہد احسان اور شہید شہداد نے اپنی قربانی سے، اپنا ایسا تعارف کرایا کہ رہتی دنیا تک ان کا نام، ان کا کام، ان کا فکر، انقلابی جذبہ اور لازوال قربانی، بلوچ و بلوچستان ہی نہیں قومی آزادی کی جنگ جہاں کہیں بھی لڑی جا رہی ہوگی شہید احسان و شہید شہداد، وہاں کے طابعلموں، نوجوانوں، سیاسی کارکنوں کیلۓ مشعل راہ کی مانند ہونگے۔ مجھ جیسا نا چیز ان شہیدوں کی تعریف کیا خاک کرے گی۔ لیکن شہیدوں سے وابسطہ ان یادوں کو آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں۔

وقت گذرتا گیا، اب کی بار شہید شہداد دنیا اور دنیاوی غموں سے دور قدرت کو قریب سے دیکھنے کی چاہت لیئے، ناران، کاغان، کشمیر و سوات کیلیے نکل پڑا تھا۔ سوچتا ہوں شہید شہداد شاید جان چکا تھا کہ ان کے پاس شاید باقی لوگوں کی نسبت وقت کم ہے اس لیے وہ دنیا کو اپنی آنکھوں میں قید کرنا چاہ رہا تھا۔ تبھی قدرت کے ان خوبصورت جگہوں پہ لی گئی شہید شہداد کی ہر ایک تصویر خود ایک داستان بیان کرتا ہے۔ کہیں وہ سگریٹ ہاتھ میں مسکراہٹ لیے کھڑا ہے، جیسے وہ آخری سگریٹ اپنی آخری سانسوں کے ہمراہ پی رہا ہو اور اس لمحے کو تصویر میں قید کرنا چاہ رہا ہو یا کہیں وہ چی گویرا کی کیپ پہنے شہید فتح قمبرانی کی نقش قدم پہ چلنے کا وعدہ لے رہا ہو۔ یا پھر موسیقی کی محفل میں دیوانہ وار ناچ رہا ہو یا پھر سٹیج پہ بیٹھے موسیقی میں اپنا سارا دھیان کھو چکا ہو۔ ہر ایک لمحے کو وہ جینا چاہ رہا تھا، ہر ایک لمحے کو وہ خوشیوں میں بدلنا چاہ رہا تھا۔ جیسے شہید شہداد کا ایک ایک لمحہ کیمرے کی آنکھوں میں محض اس لیے محفوظ ہو رہا تھا کہ کل کو لوگ انہیں تصویروں میں شہید شہداد کو تلاش کرتے رہیں۔ اور آج شہداد تصویروں کی روپ میں، ویڈیوز کی روپ میں ہم سے ہمکلام ہے ہمیں انقلاب کا درس دے رہا ہے ہمیں قربانی کے جذبے سے لیس کر رہا ہے۔

شہید شہداد بلوچ کے دل و دماغ میں بلوچ و بلوچستان اپنی جگہ بنا چکے تھے، بلوچ وطن سے محبت کا احساس اور اپنے وطن اور قوم کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا شوق شہداد کو کوہ سلیمان (ڈیرہ غازیخان) کے سنگلاخ پہاڑیوں، خوبصورت ندی نالوں، سرسبز وادیوں اور تنگ و تاریک گھاٹیوں تک بھی لے گیا۔ ہمارے لیے شاید ان کا کوہ سلیمان جانا سیر و تفریح کے معنوں میں آتا ہے لیکن شہداد ان پہاڑوں اور وادیوں کچھ اور کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ شاید وہ یہاں کے پہاڑوں کو وطن کے سرمچار فرزندوں سے خالی دیکھ کر افسردہ ہوتا ہوگا یا پھر یہ سوچ کر اس کی آنکھوں میں چمک اٹھا ہوگا کہ یہ پہاڑ اور وادیاں بھی بولان و شاشان کی طرح ایک دن بلوچ تحریک کے گڑھ کی مانند ہوں گے۔ شہید شہداد نے یوم شہدائے کوہ سلیمان ( وہ شہدا جو ایوبی دور میں وطن کی پاسبانی میں خود کو تھلا تھوخ(جگہ کا نام) میں ہمیشہ کیلئے امر کرگئے)

یوم شہدائے کوہ سلیمان کے حوالے سے بلوچ وطن کا ایک اور قابل فخر فرزند شہید سنگت ثنا بھی جا چکا تھا اور دونوں ایک جیسا خواب لیے واپس لوٹے تھے۔ شہید سنگت ثنا نے کہا تھا “ایک دن آئے گا جب یہاں کے لوگوں میں سے بھی ڈاکٹر اللہ نزر کی طرح گوریلا کمانڈر پیدا ہونگے” دونوں شہدا یہاں سے لوٹ کے وطن پہ قربان ہوگئے۔ کوہ سلیمان کے باسیوں کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ دونوں شہدا کیا پیغام لے کے آئے تھے اور بلوچ باسیوں سے کیا چاہتے تھے۔ وطن کے فرزندوں کیلئے یہ فیصلے کی گھڑی ہے کہ یا تو شہداد و سنگت ثنا کے فلسفے پہ گامزن ہوں یا پھر ریڈ انڈینز کی طرح تاریخ کے اوراق میں بے نام و نشان ہوں، یہ اب کوہ سلیمان کے نوجوانوں پہ چھوڑیں گے اس امید کے ساتھ کہ وہ شہید سنگت ثنا اور شہداد کو مایوس نہیں کریں گے۔

اب کی بار غلامی کا ایک اور درد شہید شہداد کے زخموں پہ نمک چھڑکنے کو تیار تھا اور یہ داغ بلوچستان یونیورسٹی سکینڈل کی شکل میں بلوچ قوم کے پیشانی پہ لگ گیا تھا اور شہید شہداد بلوچ بیٹوں ماؤں، بہنوں کے آنسوؤں کا مداوا کرنے ایک بار پھر اسلام آباد کی سڑکوں پہ سراپا احتجاج تھا، ان کا پریس کلب کے سامنے کی تقریر سوشل میڈیا پہ سب نے دیکھا اور آج ہر ایک آنکھ کو اشک بار کر رہا ہے کہ کیسے کیسے فرزند وطن کی گود میں ابدی نیند سو گئے ہیں۔ شہید شہداد نے بلوچ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کا قرض یمیشہ کیلئے اتار دیا ہے۔

شہد شہداد ان ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے سیاسی سٹیج سے مسلح مزاحمت تک اپنا حق ادا کیا۔ وہ شہید حق نواز، شہید امیر جان، شہید سہراب مری، شہید سنگت رحمت شاہین اور شہید سنگت نورا کے فلسفے پہ گامزن ہوکر بلوچ نوجوانوں کی فکری اور نظریاتی پرورش میں پیش پیش رہا۔ ان کا آخری لیکچر جو میں نے سنا وہ نوآبادیاتی نظام کے اوپر برازیل کے کسی سکالر کے ایک ریسرچ پیپر پہ مبنی تھا۔ لیکن شہداد اس دن مقررہ وقت سے کچھ دیر بعد پہنچے۔ ساتھی اس بات پہ غصہ بھی ہوئے کہ شہداد کو وقت کی پابندی کرنی چاہیے۔ اور تھوڑی دیر بعد شہداد اپنی مسکراہٹ لیے آیا اور ہنستے ہوئے بولنے لگا۔
“اڑے سنگتاں بہ بکش ایت منی سائیکل ہراب بوت پمیشکہ دیر بوت آہ شہدو، آپ آج بھی تھوڑا لیٹ کرتے، شاید دشمن کی وار قضا ہوجاتی اور ہمیں آپ کے ساتھ کچھ اور لمحے جینے کا موقع ملتا۔

شہید سنگت شہداد کا آخری لیکچر کراچی یونیورسٹی میں “کلچرل ہیگمنی” پہ تھا۔ وہ کتاب دوست انسان تھا۔ سچ کہا کسی نے کہ جب کتاب آپ کو بندوق کی راہ دکھائے گا تو وہ بندوق انسان دوستی، انسانی آزادی، اور انسانیت کے حصول کیلئے استعمال ہوگی” اور اب کی بار کتاب سے بندوق کا سفر ہزاروں بلوچ فرزندوں کے طرح سنگت شہداد اور احسان جان طے کرنے نکل پڑے تھے۔

اور شورپارود کی پہاڑوں میں ہمیشہ کیلئے وطن پہ قربان ہوگئے ہیں۔ بلوچ قوم نے اس جنگ کا آغاز خود کیا ہے اپنی قومی آزادی کے حصول کیلئے اور یہ جدوجہد ہزاروں کا قربانیوں کا خراج مانگتا ہے، جدوجہد ایک زندہ چیز کی مانند ہے، جس طرح ہر زندہ چیز کو زندہ رہنے کیلئے کچھ نا کچھ ایسا چاہیے جو اسے زندہ رکھ سکے اسی طرح قومی آزادی کی جدوجہد کی غذا شہدا کا خون ہے۔ یہ جنگ ہے اس میں ہمارے سب سے عزیز لوگوں کا ہم سے بچھڑنا طے ہے جس کیلئے ہم تیار تھے، تیار ہیں اور تیار ہونا بھی چاہیے لیکن شہید سنگت شہداد اور احسان جان کی یوں مختصر وقت میں ہم سے بچھڑنا ہمارے لیے ایک ایسا کڑوا گھونٹ ہے جسے ہر حال میں ہم نے نگلنا ہے۔ لیکن شہید شہداد اور شہید احسان جان کیلےے میرے الفاظ وہی ہیں جو بابا خیر بشک نے شہید بالاچ مری کیلئے کہے تھے
“وہ کچھ وقت اور زندہ رہتا، بھوکا رہتا، پیاسا ہوتا، مزید پختہ ہوجاتا”

شہید شہداد اور احسان جان کچھ اور جی لیتے، وہ قومی جبر کی چکی میں پس کر مزید کندن بن جاتے لیکن یہاں رخصت ہونا طے ہے، وہ خود کو بلوچ تاریخ میں ہمیشہ کیلئے سرخ رو کر گئے۔ آج ہمیں ان کی قربانی پہ فخر ہے۔ جاتے جاتے وہ ہمارے لیے ایک پیغام چھوڑ گئے کہ وطن کے سنگلاخ پہاڑ اسلام آباد کی بلندو بالا عمارتوں میں بیٹھنے سے ہزار درجہ بہتر ہیں۔ بولان کی گرمی اسلام آباد کی ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے کہیں زیادہ خوشگوار ہیں۔ دشمن کی کرسی پہ بیٹھ کر اسکی دی ہوئی قلم سے جابروں اور قبضہ گیروں کی مفادات سے، وطن کی خاطر بندوق اٹھانا زیادہ افضل ہے۔ شہید شہداد اور شہید احسان نے بلوچ طالبعلموں سمیت دنیا کے محکوم اقوام کے نوجوانوں کو سوچنے کا ایک اور زاویہ دکھایا ہے کہ ظالم کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے قوم و وطن کی دفاع فخر سے شہادت قبول کرنا انقلابیوں کا وطیرہ ہے۔

“جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے۔
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں”۔

رخصت اف آوارن سنگت


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔