قلم سے بندوق تک کا سفر – مہاران بلوچ

686

قلم سے بندوق تک کا سفر

تحریر: مہاران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دیکھا جائے تو یہ صرف دو الفاظ ہیں لیکن ان کے پیچھے جو سوچ اور نظریہ ہے، وہ شہید شہداد اور شہید احسان نے اپنی شہادت سے صحیح معنوں میں ثابت کرکے ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے۔ شہدا نے اپنی بغاوت اور جدوجہد سے ان مظلوم بلوچ طلبہ کو راہ دکھائی جو آئے دن اس ریاست کے ظلم و جبر سے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔

ریاست ہزاروں کے تعداد میں بلوچ طلبہ کو لاپتہ اور تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کرچکا ہے اور اب بھی ہزاروں طلبہ ریاست کے اذیت خانوں میں قید ہیں۔ اسی ریاست کے ہاتھوں کبھی بلوچستان یونیورسٹی کے طلبہ اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں تو وہیں ماہ رنگ بلوچ بی ایم سی کے ڈاکٹرز کے ساتھ بلوچ طلبہ کے حقوق کیلئے کوئٹہ کے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے۔ بلوچ طلبہ آخر کب تک اس ریاستی جبر و ظلم کا نشانہ بنتے رہیں گے۔

گذشتہ روز قلات اور خاران کے درمیانی علاقے شور پارود میں بلوچ لبریشن آرمی کا پاکستانی فوج اور فوج کے بنائے ہوئے جرائم پیشہ افراد پر مبنی نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں سے ایک جھڑپ ہوا۔ گھنٹوں جاری رہنے والی اس جھڑپ میں فوج اور ڈیتھ اسکواڈ کے متعدد کارندے ہلاک کیئے گئے جبکہ اس لڑائی میں بلوچ لبریشن آرمی کے دو جانباز سرمچار شاہ داد بلوچ عرف درّا اور احسان بلوچ عرف شاہ داد بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ و باشعور بلوچ نوجوانوں کی قومی آزادی کی جنگ و بی ایل اے میں شمولیت اس بات کی ثبوت ہے کہ بی ایل اے بلوچ قوم کی قومی فوج ہونے کے ساتھ ایک باعلم و باشعور قومی تنظیم ہے۔

شہید شاہ داد بلوچ اور شہید احسان بلوچ گذشتہ ایک سال سے بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک تھے، دونوں شہداء پختہ نظریئے اور مسلسل عمل کا پیکر تھے۔ مختصر عرصے میں انہوں نے قومی آزادی کے لیئے گراں قدر خدمات انجام دیئے۔

شہید شہداد بلوچ اور شہید احسان بلوچ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ماسٹر ڈگری ہولڈر تھے۔ شہداد بلوچ کو دوہزار پندرہ میں ملک آباد تربت سے اغوا بھی کیا گیا تھا۔

شہداد بلوچ چند سال پہلے 23 اکتوبر 2017 میں قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبا تصادم کے دوران شدید زخمی بھی ہوا تھا۔

شہید شور و پارود شہداد جان نے بنیادی تعلیم تربت عطا شاد ڈگری کالج سے حاصل کی اعلیٰ تعلیم قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ڈیفنیس اینڈ اسٹرییجک اسٹیڈیز میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور ایم فل کی ڈگری کے لیے قائد اعظم یونیورسٹی میں شعبہ نیشنل انسٹیوٹ آف پاکستان اسٹیڈیز میں اِن رول تھا۔ جبکہ شہید احسان جان نے بنیادی تعلیم تربت عطا شاد ڈگری کالج سے حاصل کی اعلیٰ تعلیم قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد شعبہ جینڈر اسٹیڈیز میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور دوسری ماسٹر کی ڈگری تربت یونیورسٹی میں شعبہ انگلش لیٹریچر میں حاصل کی تھی۔

یہ ریاستی جبر و غلامی کی مرہونِ منت ہے کہ ایم فِل اسکالر کے یہ دونوں بلوچ نوجوان بندوق اُٹھا کر پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں ۔ یونیورسٹیوں میں ناروا سلوک، مار پیٹ، تشدد، زبان و لباس کی بنیاد پر مشکوک نظروں سے دیکھنا اور ہر دن ریاستی ادارے آپکو غلامی کا احساس دلائیں اور ظاہر ہے جب آپکے لئیے تمام راستے بند کردئیے جائیں تو ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے اور وہ راستہ مزاحمت کا ہے۔

اے دشمن جب تم مجھ سے میرا قلم و کتاب اور ننگ و ناموس چھین لوگے تو تم مجھے ضرور پاو گے شوو و پارود کے پہاڑوں پر امیر جان کی راستے پر وہ بھی بندوق کے ساتھ یہ سنہرے اور تاریخی الفاظ اکثر شہید احسان جان کے تھے۔

مارد وطن بلوچستان کی زرخیز مٹی جس نے شاہ داد اور احسان جیسے فرزند پیدا کیا ہے۔ یہ عظیم فرزند دنیاوی آسائشوں سے پاک اپنا تعلیم مکمل کرنے کے بعد بندوق کو اپنا رہبر بناکر اپنے سرزمین کا دفاع کرنے، سنگلاخ پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اَکھٹے پڑھے، اَکھٹے محاذ پر چلے گئے اور دونوں نے ایک ہی مورچے سے دشمن پے وار کرتے کرتے جام شہادت نوش کی۔ اگر ہم کو تاریخ میں زندہ رہنا ہے تو ہمیں شاہ داد اور احسان بننا ہوگا۔

تاریخ کو دہراتے ہوئے، یہ نوجوان پھر لوٹ کر آئیں گے ایک نئے نام اور چہرے کے ساتھ۔

”علم و کتاب سے پہاڑوں تک کا سفر” ہمارے لیے سنگت شاہ داد بلوچ سنگت احسان بلوچ کی عظیم فکر و سوچ اور نظریہ ہر باشعور تعلیم یافتہ بلوچ طلباء کیلئے ایک مسلسل جدوجہد کی راہ ہے ۔ سنگتوں کی شہادت آنے والے نسل اور بلوچ قوم کے لئے ایک مشل راہ ہے۔ سنگت آپ نے اپنے سوچ اور نظریہ سے ثابت کردیا کہ یہ جو قلم سے بندوق تک کا سفر ہے مادر وطن کے آزادی تک یہ سفر جاری رہے گا اور ہزاروں باشعور طلبہ اپنے حقوق اور مادر وطن کیلئے شہدا کی نظریہ پر عمل پیرا ہوکر اس سفر کو جاری رکھیں گے ۔۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔