شہید شہداد بلوچ – جمیل بلوچ

1259

شہید شہداد بلوچ

تحریر: جمیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج کوہ سلیمان کی پہاڑوں پر گھومنے گیا ہوا تھا کہ اچانک مجھے شہداد بلوچ کی یاد آنے لگی کہ اس نے کہا تھا, اسے کوہ سلیمان پسند ہے اور اسے دیکھنے کا بہت شوق ہے، وقت گزرتا گیا شہداد بلوچ کوہ سلیمان کے دورے پر آگئے لیکن میں بدقسمتی سے مصروفیات کی وجہ سے ان کے ساتھ (کوہ سلیمان) نہ آ سکا، صرف فون پر ہی بات ہوئی کہنے لگے میں نے اپنے کوہ سلیمان کو دیکھ لیا اور یہاں کے بلوچی ڈالیکٹ اور لوگوں کے رویے سے انتہائی متاثر ہوں اور تلقین کی کہ ہمیں ( کوہ سلیمان کے جگر گوشوں کو) کوہ سلیمان کے لیے عملی جدوجہد کرنی چاہئے، ہمیں مل کر عوام کے محرومی کو ختم کرنا ہے، استحصالی طبقے سے نجات ہی ہماری بقا کا ضامن ہو سکتا ہے۔۔۔ ان کی یہ باتیں بار بار میرے ذہن میں رپیٹ ہو رہی تھیں۔ میں آج بہت اداس تھا اور انہی یادوں میں کھویا ہوا تھا۔ ہوا میں ایک غم ایک اداسی محسوس ہو رہی تھی جیسے کوئی اپنا مجھ سے روٹھ چکا ہو، جیسے کوئی ہم سے بچھڑ گیا ہو، اتنے میں دوست نے بتایا کہ شہداد بلوچ لڑائی کے دوران مارے جاچکے ہیں۔

شہداد بلوچ سے میں پہلی بار جولائی 2017 میں اسلام آباد میں ملا جب وہ قائداعظم یونیورسٹی میں طالب علم تھے۔ وہ عام طالب علموں کی طرح ہر گز نہ تھے کہ جن کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، وہ ایک خاص مقصد کی خاطر جی رہے تھے، وہ علم و ادب کے طالب علم تھے اور سیاست میں لیفٹ کو پسند کرتے تھے۔ وہ ہر کسی کے ساتھ خوب گھل مل جانے والے سب کی عزت کرنے والے ایک عملی انسان تھے ۔ جب بلوچستان یونیورسٹی کا سکینڈل منظرعام پر آیا تو اس نوجوان نے نہ جانے کتنی بار کال کرکے تلقین کی کہ ہمیں مل کر اس مسئلے کو اجاگر کرنا ہے۔ وہ خود بھی اس معاملے میں ایکٹو رہے اور اپنے ہم عصر دوستوں کی بھی رہنمائی کرتے رہے۔

میں نے ان سے سیکھا کہ وطن سے دوستی کیا ہوتی ہے، جی ہاں! بلوچ وفادار ہے اپنی دھرتی سے ، آخر کیوں نہ ہو اس کی پہچان تو اسی پاک دھرتی سے ہے، اس بات کو صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جن سے ان کی زمین چھینی جاتی ہے، جب بلوچ طالب علم بلوچستان چھوڑ کر پنچاب یا اسلام آباد پڑھنے جاتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اپنے وطن میں ان کی کیا عزت تھی اور باہر انہیں کس طرح ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے۔ کبھی اسٹیٹ اسپونسرڈ جمعیت کے ہاتھوں ڈنڈے کھانے پڑتے ہیں یا پھر کال کوٹھڑیوں والے یونیورسٹی سے کئی مہینوں تک غائب کر دیتے ہیں اور جرم ثابت نہ ہونے پر پھر چھوڑ دیتے ہیں، لیکن ان سب کا اگر جرم ہے تو صرف یہ ہے کہ وہ بلوچ دھرتی پر ہونے والے ظلم کو برداشت نہیں کر سکتے، اس کے خلاف ریکٹ کرتے ہیں جو کہ سو کالڈ محب وطنوں کو پسند نہیں کہ کوئی اپنی زمین سے اس قدر محبت کرے کہ انکی اجارہ داری کو خطرہ لاحق ہو جائے۔

یہی بلوچ نوجوان جب اسلام آباد میں اربوں کے اپارٹمنٹ میں سوئی گیس کو جلتے دیکھتے ہیں تو انہیں کوئٹہ کی منفی 10 ڈگری درجہ حرارت پر بیٹھی وہ ماں یاد آتی ہے کہ جو سنسان سڑک پر صبح جائے نماز پھیلائے نماز پڑھتی ہے، کہ جس کا بیٹا کئی سالوں سے لاپتہ ہے اور اس بچاری کی ہر صبح ہر شام کوئٹہ کی سڑکوں پر ہوتی ہے ۔ یہی نوجوان جب اشرافیہ (حکمران) کے بگڑے لونڈوں کو بی ایم ڈبلیو میں اپنی شہزادیوں کے ساتھ گھومتے دیکھتے ہیں تو انہیں کینسر سے تڑپتے اور جان دیتے لاوارث بلوچستان کے ننھے بچے یاد آتے ہیں اورچاندی جھانک چکی ( سر سفید کرچکی) وہ لڑکیاں بھی یاد آتی ہیں کہ جن کے منگیتر کو لوٹے برسوں بیت گئے کہ جنہیں نہ جانے کس جرم میں اغواہ کیا گیا۔ وہ اسلام آباد کے روشنیوں میں آواران کے اندھیرے کو، لاہور کے شور و غل سڑکوں پر تربت کے چپ سادھے خاموشی کو (کہ بچہ تک رو نہیں سکتا کہ کہیں کوئی اٹھا نہ لے جائے) نہیں بھول سکتے وہ یاد رکھتے ہیں۔

وہ جانتے ہیں کہ انہیں جمعیت کے ڈنڈوں تلے، کسی بم دھماکے میں، کسی جعلی مقابلے میں یا کسی آسمانی مخلوق نے بلآخر مارنا ہوتا ہے خواہ وہ قلم اٹھائیں کہ بندوق ان کی ازل سے تقدیر یہی لکھ دی گئی ہے چنا نچہ یہ نوجوان بے موت مرنے سے دھرتی پر قربان ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔۔۔ کہ جب قلم لکھنے سے قاصر ہو جب کتاب انقلا ب لانے سے قاصر ہو جب بات سنی نہ جائے جب لاجک اور منتق کی اہمیت نہ ہو صرف طاقت کے زور پر غریب کا حق چھینا جائے تو پھر انسان کے پاس دو ہی راستے بچ جاتے ہیں کہ یا تو وہ خودکشی کر کے اپنی جان گنوا دے یا پھر ظلم کےلیے لڑے۔

شہداد بلوچ کو پہاڑوں پر بھیجنے والے اسٹیٹ کے اہلکار ہیں، قلم سے بندوق کے سفر میں حکومت اور اسکے چمچے شامل ہیں کہ جنہیں احساس نہیں کہ تربت، کوہلو، ڈیرہ بگٹی ، آواران اور پنجگور کس حال سے گزر رہے ہیں۔

وہ تو اپنے بچوں کے ساتھ خوش ہیں انہیں بھلے احساس ہی کب ہوگا کوئی بھوک سے مرے یا بارود سے۔ مرنے والا خواہ بلوچ ہو ، پختون ہو، سندھی ہو یا پنچابی ان کو صرف اپنے عیش و عشرت سے مطلب ہے۔ اور یہی لوگ قاتل ہیں ہر اس مظلوم کے جو بھوک سے یا بارود سے مرجاتا ہے۔

شاید آپ نے نوجوان (شہید) کے اس وڈیو کو دیکھا ہوگا جس میں وہ ایک نجی ٹیلی ویژن میں ایک پارلیمانی نمائندے سے سوال کر رہے ہیں کہ سندک، سوئی اور ریکوڈک نے بلوچستان کی قسمت نہ بدلی تو پھر یہ سی پیک کیسے ان کی قسمت بدلے گا لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا بھلا جواب ہوگا بھی کیسے ۔۔۔ 70 دہائی سے عوام کو لوٹنے والے کے پاس اب جھوٹ بولنے کے راستے بھی بند ہو چکے۔

اس طرح کے کئی سوال ہر مظلوم طبقہ بلوچ، سندھی، پختون اور پنچابی کا ہے لیکن ان کے جواب حکمران اور ظالموں کے پاس نہیں اور پھر یہ مظلوم بندوق کا سہارا لیتے ہیں اور پہاڑوں پر مارے جاتے ہیں۔

یہ مارنے اور مارے جانے کا سلسلہ آج سے نہیں ستر برسوں سے جاری ہے پھر وہ خان آف قلات کے بیٹوں کو ان کے سامنے پھانسی دی جارہی ہو یا پھر جامعہ بلوچستان کے سامنے صباء دشتیاری جیسے پروفیسر کو شہید کیا جارہا ہو اسٹیٹ اپنی پالیسیاں اور غنڈہ گردی اسی طرح جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ طاقت کے نشے میں بلوچ نوجوانوں کے خون سے کھیل رہا۔ یقین جانیے بلوچ امن پسند کسی طرح کا جنگ نہیں چاہتے لیکن حکومت نہیں چاہتی کہ بلوچ امن سے رہیں کیونکہ نہ تو ان کو بنیادی حق دیے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کی بات سنی جاتی ہے۔ پھر وہ شہداد بلوچ کا سوال ہی کیوں نہ ہو۔ یہ سوال جواب مانگتے ہیں اور اسٹیٹ کے پاس جواب بندوق کی گولی کی شکل میں ہے جو بلوچ کئی برسوں سے اپنے سینے پر کھاتا آ رہا ہے۔

خدارا ! اس بارود کے کھیل کو ختم کر دیجئے۔ جو ظلم کر چکے اب روکیں، اب بلوچوں کو ان کا حق دیں، انہیں تعلیم شعور کے ساتھ ساتھ بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی فراہم کریں ۔ جھوٹ اور فریب پر استوار ان روایتوں کو ختم کر کے سنجیدہ ہو کر بلوچستان کا ایک مستقل حل ڈھونڈیں۔ یہ تو واضح ہو چکا کہ پچاس سالوں سے اگر بارود اور بندوق کی لڑائی سے کوئی فائدہ نہ پہنچا صرف بلوچ مائیں تڑپتی رہی، بلوچ سرزمین پر خون گرتا رہا تو اب اس جنگ کو ختم کرکے امن کی طرف لوٹ آئیں۔

ہر انسان اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے، اس کے اس بقا کی جنگ میں اس کا ساتھ دیں، اس کو اس کا بنیادی حق دیں، وہ سی پیک ہو، سیندک ہو یا ریکوڈک۔

صرف میڈیا کے سامنے جھوٹ بولنے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ایک پارلیمانی نمائندے کے جھوٹ سے شہداد بلوچ تو بندوق کی نظر کر ہو چکا خدارا باقی بلوچ نوجوانوں کو بچا لیں ۔ ان بچوں کے سوالوں کے صحیح جواب مل جائیں تو یہ قلم چھوڑ کر کبھی بندوق نہیں اٹھا ئیں گے۔ اب آپ لوگوں کو سنجیدہ ہونا پڑے گا ، کیونکہ جھوٹ کا یہ کھیل مزید نہیں چل سکتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔