جہاں کورونا کے کیسز کم ہور ہے ہیں وہاں وائرس کی دوسری لہر کا امکان ہے – ڈبلیو ایچ او

116

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ وہ ممالک جہاں کورونا وائرس کی وبا میں کمی واقع ہورہی ہے اگر وہ اس وبا کو روکنے کے اقدامات سے بہت جلد دستبردار ہوجائیں گے تو پھر انہیں وبا کی دوسری لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کی ہنگامی صورتحال کے سربراہ ڈاکٹر مائیک ریان نے ایک آن لائن بریفنگ میں بتایا کہ بہت سارے ممالک میں کیسز کم ہورہے ہیں تو وسطی اور جنوبی امریکا، جنوبی ایشیا اور افریقہ میں بڑھ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وبائی بیماری اکثر لہروں کی صورت میں آتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کورونا وائرس اس سال کے آخر میں ان جگہوں پر واپس آسکتا ہے جہاں پہلی لہر ختم ہورہی ہے۔

ڈاکٹر مائیک ریان نے مزید کہا کہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ اگر پہلی لہر کو روکنے کے اقدامات ختم کردیے گئے تو وائرس کی شرح میں ایک بار پھر تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہم دوسری لہر کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس سے ہمارا مطلب ہوتا ہے کہ پہلی وبائی لہر از خود جنم لیتی ہے جبکہ دوسری لہر چند مہینوں کے بعد پیدا ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن ہمیں اس حقیقت سے بھی واقف رہنا چاہیے کہ یہ بیماری کسی بھی وقت بڑھ سکتی ہے۔

ڈاکٹر مائیک ریان نے مزید کہا کہ ہم یہ قیاس نہیں کر سکتے کہ اب مرض ختم ہورہا ہے اور یہ مسلسل ختم ہی ہوتا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یورپ اور شمالی امریکا کے ممالک کو صحت عامہ اور سماجی فاصلے، نگرانی سمیت جانچ کے اقدامات اور ایک جامع حکمت عملی کو جاری رکھنا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ وبا کم ہوتی جائے۔

جہاں دنیا بھر میں کئی ممالک میں نافذ لاک ڈاؤن میں نرمی کا سلسلہ جاری ہے وہیں ڈبلیو ایچ او نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ شاید یہ وبا پوری طرح اب کبھی ختم نہیں ہوسکے گی۔

بہت سے یورپی ممالک اور امریکی ریاستوں نے حالیہ ہفتوں میں لاک ڈاؤن میں نرمی کردی ہے۔

خیال رہے کہ کورونا وائرس کا پہلا کیس گذشتہ سال دسمبر میں چین کے شہر ووہان میں سامنے آیا اور جب سے دنیا بھر میں 55 لاکھ سے زائد افراد اس وائرس کا شکار ہوئے جبکہ 3 لاکھ 45 ہزار سے زائد افراد اس وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہوچکے ہیں۔