بلوچ سماج میں محنت کش طبقہ آج بھی غلامی کی تصویر پیش کرتی ہے – این ڈی پی

203

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے عالمی یوم مزدور کے دن کی مناسبت سے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ انسان کی مالی زندگی کی حالت اس کے سماجی تعلقات اور زندگی سے اس کے خیالات، تصورات اور نظریہ کے ساتھ ساتھ شعور بھی بدل جاتا ہے۔ جو سماج شعوری تبدیلی کو اپناتے ہیں یقیناً وہ پرانے سماج کے اندر ایک نئی ترقی پسندانہ سماج کی بنیاد ڈال دیتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس شعوری تبدیلی کا تعلق عمل سے ہے اور جب مزدور اور محنت کش طبقے نے اشرافیہ کے ظلم و ذیادتیوں کے خلاف کمربستہ ہوکر انقلابی حکمت سے جدوجہد کی ہے تو اس وقت سامراجیت کو بھی لگام لگا ہے بلکہ سماج میں موجود سرمایہ کار اور محنت کش طبقے کے مابین توازن برقرار رہا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سرمایہ دار کے پاس ذریعے پیداوار ہے جو مزدوروں اور محنت کشوں سے اُجرت پر کام لیتا ہے جبکہ مزدوروں کے پاس اپنے استعداد محنت بیچنی پڑتی ہے۔ مزدوروں، محنت کش طبقے کی صدیوں پر محیط طویل جدوجہد کے ثمرات یورپی ممالک میں زیادہ مثبت نظر آتے ہیں اس کے برعکس جنوبی ایشیائی ممالک میں مختلف محکوم اقوام بدقسمتی سے یورپ کے نسبت ایک مختلف خاکہ پیش کرتی ہے جہاں بالادست قوم اپنے زیر تسلط اقوام سے نوآبادیاتی پالیسوں کے تحت مزدور و محنت کش طبقے سے اس کا حق چھین رہی ہے جسکی واضع مثال بلوچ قوم ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ بلوچ سماج میں موجود اکثریت مزدور اور محنت کش طبقہ آج بھی غلامی کی تصویر پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف اشرافیہ نے چند مٹھی بھر سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر بلوچ قوم اور محنت کش عوام کا بدترین استحصال کررہے ہیں۔

اکیسوی صدی میں بلوچ محنت کش طبقہ سامراجیت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جہاں نہ اسے پینے کے لیئے صاف پانی میسر ہے بلکہ خوراک، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں کے لیئے محتاج رکھا گیا ہے۔ بےروزگاری اپنے عروج پر ہے جبکہ زراعت اور مال داری سے منسلک محنت کش کسان دھکان کو نہ سرکاری سبسڈی مہیا ہے اور نہ ہی ان شعبوں کی ترقی کے لیئے بلوچ معاشی استحکام کو مناسب طرز پر لانے کے لیئے سرکار یا ریاست کے پاس کوئی منصوبہ بندی ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچ سماج میں موجود طبقاتی اختلافات کے پیچیدگی کو ختم کرنے کے لیئے بلوچ محنت کش طبقے کو اپنی مدد آپ صف آراء ہونا پڑے گا۔ بلوچ سرمایہ دار، بلوچ مزدور اور محنت کش کو آپسی تصادم سے زیادہ ان کے درمیان توازن قائم کرکے بلوچ خطے میں قائم نوآبادیاتی پالیسی اور اشرافیہ طبقے کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے راہ ہموار کیئے جائیں تاکہ بلوچ قومی ملکیت کی دفاع کرکے بلوچ خطے میں موجود اکثریت محنت کش مزدوروں کو ان کی اجرت مل سکے اور یہ تب ممکن ہے جب بلوچ محنت کش طبقہ لفاظی بننے کی بجائے عملی طور پر قابض اشرافیہ کا تختہ انقلابی طرز حکمت پر الٹ دے اور ایک مہذب مزدور و محنت کش طبقے کے اقتدار کی بنیاد رکھ سکے۔