سفر بلوچستان اور منزل – یاسر بلوچ

227

سفر بلوچستان اور منزل

تحریر۔ یاسر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سائنسی و فنی تعلیم وقت و حالات کے ساتھ جدید ہوتے جارہے ہیں۔ دنیا کا ہر ملک جدید علوم سے آراستہ ہو رہا ہے اور ترقی کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ امیر بلوچستان کے غریب عوام جدید تو کیا علم حاصل کرنے سے بھی کتراتی نظر آ رہی ہے، شاید علم حاصل کرنے کو یہاں کے لوگ اب خطرے کا باعث سمجھتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہر فرد کی خواہش ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور تعلیم یافتہ ہونے یا ان کے قریب رہنا ہونا تھا۔ مگر اب حالت کچھ اور منظر پیش کر رہے ہیں لوگ تعلیم حاصل کرنے، شعوری بننے کو خطرہ محسوس کررہے ہیں کیونکہ بلوچستان کے حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے ہیں۔

بلوچستان میں غربت کی شرح کافی نیچے ہے، ہر دوسرا فرد دو وقت کی روٹی کیلئے ترستا ہے، اسی لیے تعلیم اور علم حاصل کرنا کافی مشکل ہے لیکن اس کے باوجود بھی غریب عوام اپنا پیٹ کاٹ کر علم حاصل کرتے ہیں، دل میں امید کی کرن اور کچھ بننے کی خواہش کے سامنے بھوک، مفلسی اور غریبی کا درد چھوٹا ہوتا ہے۔ اس لیئے بلوچستان کے تعلیم یافتہ افراد صرف ڈگری یافتہ نہیں شعور یافتہ بھی ہیں۔

مگر اس کے باوجود بھی شعور یافتہ طبقہ اس وقت سب سے زیادہ خطرے میں ہوتا ہے اور بلوچستان کے حالات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں کے تعلیمی اداروں میں علم کے بجائے بہت بڑا اسکینڈل سامنے آتا ہے۔ یہاں کے مستقبل کے مسیحا یعنی ایم-بی-بی-ایس کے اسٹوڈنٹس کو کبھی فیس کی مد میں تعلیم حاصل کرنے سے روکتے ہیں تو کبھی رات کے اندھیرے میں ہاسٹل سے بےدخل کردیتے ہیں۔ ان حالات کے باوجود بھی کئی مشکلات سے نکل کر جب کوئی ڈاکٹر بنتا ہے، تو اس کے لیے زندگی کے مزید سخت دن انتظار میں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ڈاکٹر مسیحا کے بجائے قصائی بنتا ہے، دو نمبر دوا، چیک اپ کے بدلے بھاری رقم فیس کی مد میں اور مہنگے ٹیسٹ کے نام پر بڑی رقم لیکر غریب عوام پر ظلم کرتا ہے، تو اسے عزت بھی دی جاتی ہے، پروٹوکول بھی اور شہرت یافتہ بھی بن جاتا ہے، مگر جب کوئی ڈاکٹر حقیقی مسیحا بنتا ہے، اپنے لوگوں کی خدمت کرتا ہے تو یہاں اسے ہر طرف سے نشانہ بنایا جاتا ہے، نہ اسے کوئی سہولت دی جاتی ہے، نہ حفاظتی سامان، نہ کوئی سیکورٹی، جب مجبوراً اپنا حق مانگنے لگیں تو ان پر ڈنڈے برسا کر انہیں زندانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔

یہاں جب انصاف کیلئے لڑنے کی خاطر وکیل بنتا ہے، لوگوں کو انصاف دلانے کیلئے وکالت کرتا ہے، تو 8 اگست کا سانحہ ہوکر انصاف کے خاطر لڑنے والوں کو بلوچستان سے چھین لیا جاتا ہے، یہاں کا عوام پیٹ کاٹ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرہی لیتا ہے تو نوکری کیلئے اسے در در کے ٹھوکریں کھانے پڑتے ہیں۔ اسے تعلیم حاصل کرنے کی پوری سزا بےروزگاری کی شکل میں پوری طرح ملتی ہے۔ اگر کوئی صحافی بن کر سچ کیلئے لڑتا ہے تو اسے سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا ہے۔ کوئی لکھاری حقیقت سامنے لانے کیلئے لکھتا ہے تو اسے مجنوں کہا جاتا ہے، جب کوئی اپنی قوم کی حقیقی رہنمائی کرتا ہے، قوم کی خاطر جدوجہد کرتا ہے، تو اسے غدار اور ایجنٹ کا لقب دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی تاریخ دان جاگیردارانہ نظام کے ظلم کو تاریخ میں لکھے تو اس کے قلم کو توڑ کر کڑی سزا دی جاتی ہے۔ اگر کوئی شاعر اپنے وطن کا درد بیان کرے تو اس کی آواز کو ہی دبا دیا جاتا ہے۔ شعور یافتہ بنے اور علم حاصل کرنے سے ڈرنے کی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ یہاں کے ہزاروں لاپتہ افراد جن کی اکثریت کا تعلق ڈاکٹر انجینئر رائٹرز صحافت جیسے شعوری اور علمی شعبے سے ہے، اگر کوئی ان واقعات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرے تو اسے بھی لاپتہ ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ اسی لیے ڈر اور خوف کے ماحول سے سفر بلوچستان کانٹوں بھری اور مشکل ہے۔ بدقسمتی سے منزل اس سے بھی خطرناک دکھائی دے رہی ہے، اسی لیے پچھلے ستر سالوں سے بلوچستان تیزی سے پسماندگی کی طرف سفر کر رہا، نہ جانے کب حکمرانوں کو بلوچستان پر رحم آئے! کب بلوچستان کی تقدیر بدلے اور کب یہ خوف کا ماحول ختم ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔