تنقید – شکیل بلوچ

663

تنقید 

 تحریر : شکیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب سے انسان نے شعور کی آنکھ سے معاشرے کو دیکھنا شروع کیا ہے تو اس نے معاشرے کے درمیاں دو قسم کے لوگ پائے ہیں۔ ایک وہ جو ہر بات پر تعریف کریں اور دوسرا وہ جو تنقید، طنز اور نقطہ چینی کرتے ہیں۔ انسان کا یہ فطری عمل ہے کہ جب اسے کچھ نہیں آتا تو وہ نقطہ چینی شروع کردیتا ہے۔

اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ، معاشرے اور خاندان میں ہر جگہ تنقید کو پذیراہی حاصل ہوتی جاری ہے۔ اسے معاشرے کا ایک ایم جزو مانا جاتا ہے ۔ سیاسی ،سماجی ،فلاحی ادارے وا دیگر ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہتے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ آیا یہ تنقید ہوتا کیا یے؟
تنقید سے مراد کیا ہے؟
تنقید کہتے کسے ہیں؟

تنقید (criticism) لفظ critique سے نکلا ہے جسکا معنی ہیں “گہرائی” اس سے مراد یہ ہیکہ کسی بھی چیز کے اچھائی و برائی کو گہراہی سے سمجھنا ۔ یہ ہمیشہ معاشرے کے اصلاح کے لیے ہوتا ہے۔ مگر کچھ لوگ اسکے معنی کو غلط سمجھ لیتے ہیں کہ تنقید کا مطلب کسی کے خامی کو ڈھونڈھ کر مخالف کو معاشرے میں نیچا دکھانا ہے۔

ایک ماہر نفسیات کے مطابق تنقید بہتری کا نام ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ تنقید کے زریعے معاشرے میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ مثلاً کسی انسان میں کوئی کمی محسوس ہو تو اس پر اعتراض کرنے کے بجائے اس سے بہتر انسان بن کر دکھائے ۔ اگر کسی انسان کو کوئی کتاب اچھا نہیں لگتا تو اس سے بہترین کتاب لکھ کر تنقید کا جواب دے۔

ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، یہاں ہمیں ہر چیز کا تعارف اچھی طرح سمجھایا نہیں جاتا، جسکی وجہ سے پڑھے لکھے جاہلوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ جسکی وجہ سے ہمارا معاشرہ بہتری کے بجائے، بدتری کا شکار ہوتا جارہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جن اداروں کا کام شعور و آگاہی پھیلانا ہے، وہ بدقسمتی سے لاشعوری و نا بینائی پھیلا رہے ہیں۔ ہر جگہ نیم علم والے لوگ معاشرے کو دیمک کی طرح کھوکلا کرتے جارہے ہیں ۔ جب انسان کو معاشرے کا ایک پہلو دکھایا جاتا ہے جسکی وجہ سے گمراہی کو تقویت، اور فروغ ملتا ہے پھر وہ ہر جگہ نقطہ چینی اور لاشعورری کو اپناتے ہیں۔

تنقید کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے لیے ہر انسان میں خود ارادیات کا ہونا ضروری ہے، کیوںکہ جب تک کسی انسان میں خود ارادیات نہیں ہوگی تو وہ تنقید کو منفی سمجھ کر تنقید برائے تنقید کرے گا۔ جب اگر خود ارادیات انسان میں ہوگی تو یقیناً تنقید کو تعمیر کی طرف لے جائےگی۔ جس سے معاشرہ ایک بہتر شکل اختیار کرے گا۔ ہمیں مسلسل اپنے ماہر علوم، ماہر عمرانیات، ماہر نفسیات، ماہر سیاسیات و دیگر سے ملکر تنقید کو بہتر شکل دینے کی کوشش کرنی چاہیئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔