بلوچ قومی جدوجہد، چند سوالات – چیدگ بلوچ

280

بلوچ قومی جدوجہد، چند سوالات

تحریر: چیدگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

غلامی کیخلاف نظریاتی جدوجہد ہی واحد راستہ ہے جو آزاد و خودمختار زندگی کا سبب بنتا ہے اور یہ جدوجہد غلام اقوام کے خاص لوگوں سے سر اٹھا کر پورے قوم میں پھیل جاتی ہے، تبدیلی کی تحریکیں بغیر قربانی کے آگے نہیں بڑھتیں، آزادی غلام اقوام سے بے بہا قربانیوں کا تقاضہ کرتی ہے-

بلوچ قومی جدوجہد جاری و ساری ہے، طویل ہے، مگر قربانیوں کا تسلسل ہے، یہاں نظریاتی جہدکاروں نے کبھی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا ہے، جب بھی مادر وطن کو لہو کی ضرورت پڑی تو اس کے فرزند بلا جھجھک ہمیشہ حاضر رہے-

یہ جنگ اگر جاری ہے تو انہی شہیدوں کی بدولت، وہ نظریاتی جہدکاروں کی بدولت، جنہوں نے زاتی زندگی کو پس پشت ڈال کر، قومی اجتماعی جنگ کا حصہ بن کر، اپنے عمل سے ثابت کیا ہے-

یہاں چند عناصر ایسے بھی موجود ہیں جو بندوق کی دو گولیاں فائر کرکے یا ایک دو بار رسک لے کر خود کو جدوجہد سے بالاتر تصور کرتے ہیں-

ہم نے اس جدوجہد میں آنے سے پہلے کس بنیاد پر یہ فیصلہ کیا کہ غلامی کیخلاف جدوجہد آخری سانس تک؟ اس کے علاوہ تمام تر ذاتی خواہشات، موقع پرستی، انا پرستی، دھوکہ دہی وغیرہ کو ٹکرا قومی آزادی کے لئے مسلسل جدوجہد کا انتخاب کرکے اپنے فرائض سرانجام دیں گے لیکن اس کے باوجود ذاتی خواہشات، مفاد پرستی اور موقع پرستی کو پسِ پشت نہ ڈال سکے- کیا یہ تمام عہد و قسم جھوٹ پر مبنی تھے؟ کیا ہم حقائق سے منہ نہیں پھیر رہے یا احساسِ غلامی سے محروم ہیں؟ جھوٹ کا سہارا لیکر اور موقع پرستی سے فائدہ اٹھا کر قومی کاز کو نقصان پہنچانا کیا خود کو نقصان دینا نہیں؟

جہاں سے ہمارے راستے آغاز ہوتا ہے ہم جان بوجھ کر خود کو اس راہ سے بیگانہ کر رہے ہیں کیا یہ خود سے فریب نہیں؟ کیا یہ قوم اور شہیدوں کے لہو سے دھوکہ نہیں؟

ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیئے کہ قومی جدوجہد ہم سے کیا تقاضہ کرتی ہے اور ہم خود کہاں پر کھڑے ہیں؟ اگر جدوجہد ہم سے ایمان دارانہ و مخلصانہ اعمال کا تقاضہ کرتی ہے تو ہم نے اسے کس حد تک نبھایا ہے اور نبھا رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اگر ہم فیل نظر آتے ہیں تو بحیثیت جہدکار ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اپنی سر زد غلطیوں کو کیسے درست کرکے عملی طور پر اس جدوجہد کو مخلصانہ انداز میں آگے لے جائیں؟

ہمیں اپنی قابلیت اور تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا- جس کے پاس قابلیتوں کا انبار لگا ہے وہ چند مدتوں کیلئے مخلصی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر پتہ نہیں بعد میں انہیں کس بیماری نے گھیرا ہوتا ہے کہ آرام کرنے کا بھوت سوار ہو جاتا ہے- نہ جانے کیوں انہیں مسلسل جدوجہد کے نام پر بخار چڑھتا ہے-

غلطیاں ہوتی ہیں مگر ماضی میں سر زد غلطیوں کو نظر انداز کرنا انقلابی جدوجہد کیلئے زہرِ قاتل ہوتی ہیں جس سے دشمن قوت کو ہی فائدہ پہنچتا ہے- تبدیلی کی تحریکیں ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرکے ہی آگے بڑھتے ہیں-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔